تیونس، مراکش اور الجزائر کے شہریوں کی جرمنی بدری میں اضافہ
8 اکتوبر 2018
جرمن روزنامے ’بلڈ‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تین مغربی افریقی ممالک کے ساتھ مہاجرین کی جرمنی بدری کے حوالے سے مذاکرات کے نتیجے میں ان ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی ملک بدریوں میں تیزی آئی ہے۔
اشتہار
جرمن روزنامے‘بلڈ‘ نے آج شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ تین مغربی افریقی ممالک، تیونس، الجزائر اور مراکش سے جرمنی آنے والے تارکین وطن کی ملک بدریوں میں گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ڈی پورٹ کیے جانے کے کیسز میں بعض جگہ پانچ گنا تک اضافہ ہوا۔
جرمن وزارت داخلہ کی داخلی دستاویزات کے مطابق سن 2016 سے جرمن دفتر خارجہ اور دیگر محکموں کے باہمی تعاون کی بدولت تینوں افریقی ممالک کے ساتھ اپنے شہریوں کو واپس قبول کرنے کے حوالے سے کامیاب مذاکرات ہوئے جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر ملک بدر کیے جانے والوں کی نشاندہی ہو سکی۔
اسی دوران تینوں ممالک کے لیے اب جديد اليکٹرانک نظام کے ذریعے اپنے شہریوں کی بائیو میٹرک ڈیٹا کے ذریعے شناخت بھی ممکن ہو گئی ہے۔
دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ اس اقدام سے بھی تینوں مغربی افریقی ممالک کے شہریوں کی شناخت کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا۔ ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنایا گیا ہے کہ اب ملک بدری کے لیے مطلوبہ سفری دستاویزات کا اجراء پہلے کی نسبت زیادہ سہولت سے ہو سکے گا۔
رپورٹ کے مطابق سن 2015 میں صرف ستاون الجیرین مہاجرین کو جرمنی بدر کیا گیا تھا جبکہ اگست سن 2018 کے آخر تک یہ تعداد چار سو ہو گئی ہے۔ تیونس کے کیس میں یہی تعداد سن 2015 میں ڈی پورٹ کیے جانے والے سترہ تیونسی باشندوں کے مقابلے میں رواں سال اگست تک 231 نوٹ کی گئی جبکہ مراکش سے جرمنی آئے اکسٹھ مہاجرین کو سن 2015 میں واپس بھیجا گیا تھا جس کی نسبت امسال اگست کے آخر تک 476 مراکشی شہریوں کو ملک بدر کیا گیا۔
ص ح / ع س / نیوز ایجنسی
کن ممالک کے کتنے مہاجر بحیرہ روم کے ذریعے یورپ آئے؟
اس سال اکتیس اکتوبر تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسان کشتیوں میں سوار ہو کر بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے یورپ پہنچے، اور 3 ہزار افراد ہلاک یا لاپتہ بھی ہوئے۔ ان سمندری راستوں پر سفر کرنے والے پناہ گزینوں کا تعلق کن ممالک سے ہے؟
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
نائجیریا
یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس برس اکتوبر کے آخر تک بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے ڈیڑھ لاکھ تارکین وطن میں سے بارہ فیصد (یعنی قریب سترہ ہزار) پناہ گزینوں کا تعلق افریقی ملک نائجیریا سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی تعداد پچھلے دو برسوں کے مقابلے میں اس سال کافی کم رہی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ساڑھے چودہ ہزار شامی باشندوں نے یورپ پہنچنے کے لیے سمندری راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
جمہوریہ گنی
اس برس اب تک وسطی اور مغربی بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے گیارہ ہزار چھ سو پناہ گزینوں کا تعلق مغربی افریقی ملک جمہوریہ گنی سے تھا۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
آئیوری کوسٹ
براعظم افریقہ ہی کے ایک اور ملک آئیوری کوسٹ کے گیارہ ہزار سے زائد شہریوں نے بھی اس برس بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش کے قریب نو ہزار شہری اس سال کے پہلے دس ماہ کے دوران خستہ حال کشتیوں کی مدد سے بحیرہ روم عبور کر کے یورپ پہنچے۔ مہاجرت پر نگاہ رکھنے والے ادارے بنگلہ دیشی شہریوں میں پائے جانے والے اس تازہ رجحان کو غیر متوقع قرار دے رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
مراکش
شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک مراکش کے ساحلوں سے ہزارہا انسانوں نے کشتیوں کی مدد سے یورپ کا رخ کیا، جن میں اس ملک کے اپنے پونے نو ہزار باشندے بھی شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
عراق
مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک عراق کے باشندے اس برس بھی پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتے دکھائی دیے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران چھ ہزار سے زائد عراقی شہریوں نے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Menguarslan
اریٹریا اور سینیگال
ان دونوں افریقی ممالک کے ہزاروں شہری گزشتہ برس بڑی تعداد میں سمندر عبور کر کے مختلف یورپی ممالک پہنچے تھے۔ اس برس ان کی تعداد میں کچھ کمی دیکھی گئی تاہم اریٹریا اور سینیگال سے بالترتیب ستاون سو اور چھپن سو انسانوں نے اس برس یہ خطرناک راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
پاکستان
بحیرہ روم کے پر خطر سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد اس برس کے پہلے نو ماہ کے دوران بتیس سو کے قریب رہی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے مختلف یورپی ممالک میں پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Stavrakis
افغانستان
رواں برس کے دوران افغان شہریوں میں سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کے رجحان میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اس برس اب تک 2770 افغان شہریوں نے یہ پر خطر بحری راستے اختیار کیے۔