1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیونس میں ایک شخص کی ہلاکت کے خلاف پر تشدد مظاہرے

14 اکتوبر 2020

تیونس میں حکام کی جانب سے ایک دوکان منہدم کرنے کے دوران ایک شخص کے ہلاکت کے بعد زبردست احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا جبکہ اہم عمارتوں کی حفاظت کے لیے فوج کو تعینات کیا گیا ہے۔

Tunesien Proteste in Sbeitla
تصویر: Mohamed Zarrouki/AFP/Getty Images

تیونس میں حکام نے اس شخص کی ہلاکت کی تفتیش کا حکم دیا ہے جس کی منگل کے روز موت کی وجہ سے مرکزی شہر سبطلہ میں فسادات کی صورت حال پیدا ہوگئی۔ عینی شاہدین کے مطابق 49 سالہ شخص کی موت اس وقت ہوئی جب حکام نے ان کے بیٹے کی سگریٹ کی ایک چھوٹی سی دوکان کو منہدم کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق متاثرہ شخص اسی کھوکھے میں سوئے ہوئے تھے اور حکام نے بغیر کسی اطلاع کے اسے الٹ دیا جس کی زد میں آکر ان کی موت ہوگئی۔

متاثرہ شخص کے 25 سالہ بیٹے اسامہ خشنوئی نے بتایا کہ مقامی حکام نے انہیں پیشگی ایسی کوئی اطلاع یا نوٹس تک نہیں دی کہ ان کی دوکان کو منہدم کیا جائیگا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکام نے دوکان گرانے سے قبل یہ تک نہیں دیکھا کہ آیا اس کے اندر کوئی ہے یا نہیں اور اسے منہدم کر دیا۔

اسامہ خشنوئی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''میرے والد کی موقع پر ہی موت ہوگئی۔۔۔۔۔ میرے اہل خانہ کے جو افراد والد صاحب کو بچانے کے لیے دوکان کی طرف گئے تو ان پر بھی سکیورٹی فورسز نے آنسو گیس کے گولے داغے۔''

اس خبر کے آتے ہی اندرون شہر غم و غصے کی لہر پھیل گئی جہاں بیشتر افراد روزی روٹی کے لیے مختلف اشیاء فروخت کرنے پر مجبور ہیں، اور لوگوں نے اس کارروائی کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے۔ عوام پولیس کی زیادتیوں کے خلاف پہلے ہی سے نالاں تھی، خاص طور پر غریب عوام کے ساتھ پولیس کی زیادتیوں کے رویے پر پہلے ہی سے کافی شکایتیں ہیں۔

ایک بے نام ایلان کردی

02:18

This browser does not support the video element.

پولیس سربراہ برطرف

 انہدامی کارروائی میں موت کی خبر سے لوگ اس قدر برہم تھے کہ حکام کے مطابق مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ شروع کر دیا اور جگہ جگہ راستوں کو بلاک کردیا گیا جبکہ کئی مقامات پر بطور احتجاج ٹائر جلائے گئے۔ مقامی انتظامیہ نے شہر کی حکومتی عمارتوں کے تحفظ کے لیے فوج  اور اضافی سکیورٹی دستوں کو تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔

تیونس کے وزیر اعظم حکیم مشیشی نے اس صورت حال پر اپنے بیان میں اسامہ خشنوئی کی فیملی کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کے خلاف کارروائی کی گئی ہے اور ضلعی سطح کے سکیورٹی افسر اور پولیس سربراہ کو برخاست کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ کو

 متاثرہ شخض کی تمام طرح کی مدد اور اعانت کے لیے کہا گیا ہے اور وہ فیملی کو فوری طور پر اخلاقی اور مالی مدد فراہم کریں گے۔

سن 2011 میں تیونس کے ایک سبزی فروش بوعزیزی کے ٹھیلے کو پولیس نے سر بازار الٹ دیا تھا اور بو عزیزی نے بطور احتجاج آگ لگا خودکشی کر لی تھی۔ اسی واقعے سے تیونس میں جمہوری انقلاب کی ابتدا ہوئی تھی جس کی وجہ سے حکومت کا تختہ پلٹ گیا۔ حالیہ موت کا بھی اسی سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔

بو عزیزی کی ہلاکت کے بعد تیونس میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوئے تھے اور بالآخر ملک کے صدر زین العابدین بن علی کو وہاں سے فرار ہونا پڑا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ بہار عرب کی ابتدا بھی تیونس میں اسی واقعے سے ہوئی جس کی وجہ سے کئی عرب ممالک میں آمرانہ حکومتوں کے خلاف تحریکیں شروع ہوئیں۔ مصر میں بھی اسی طرز پر احتجاج ہوا جہاں حسنی مبارک کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں