تیونس میں حکومت و اپوزیشن کا مصالحتی مذاکراتی عمل
26 اکتوبر 2013ان مذاکرات کے باعث تیونس میں پیدا شدہ سیاسی تعطل کی فضا کے تحلیل ہونے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ سیاسی ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کے لیے اسلام پسند حکومت اور لبرل اپوزیشن کے درمیان مصالحتی مذاکراتی عمل کا آغاز جمعے کو ہوا تھا۔ اس طرح یہ مصالحتی عمل اب دوسرے روز میں داخل ہو گیا ہے۔ آج ہفتے کے دن بھی حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے مصالحت کار پیچیدہ معاملات کو حل کرنے میں مصروف رہے۔
تیونس کئی مہینوں سے سیاسی تناؤ کی وجہ سے مالی و سماجی بحران کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔ اب النہضہ کی حکومت کو پولیس کی ہڑتال کی دھمکی کا بھی سامنا ہے۔ عوام بھی النہضہ حکومت کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ گزشتہ پیر کو ہزاروں افراد نے حکومت کی مستعفی کے حق میں احتجاجی ریلی نکالی تھی۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جمعے کو ہونے والے پہلے روز کے مذاکرات کے دوران وزیراعظم علی العريض نے اپوزیشن کو تحریری طور پر وعدہ دیا کہ وہ اور اُن کی کابینہ مستعفی ہو جائیں گے تاکہ نئے انتخابات کی راہ ہوار ہو سکے۔ اس کے علاوہ آزاد اور غیر جانبدار افراد پر مبنی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ اس سلسلے میں ایک ہفتے کے اندر اندر نئے وزیراعظم کے نام کا اعلان بھی کر دیا جائے گا۔
آج ہفتے کے روز النہضہ پارٹی اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے درمیان نئی حکومت کی تشکیل کے لیے مذاکراتی عمل جاری رہا۔ یہ مذاکراتی عمل تیونس کی کلیدی لیبر یونین UGTT کی ثالثی میں جاری ہے۔
آج ہفتے ہی کے روز مصالحت کاروں کا ایک اور اجلاس ممکن ہے اور اس میں ماہرین کے کمیشن کی ساخت پر بحث کی جائے گی۔ ایکسپرٹس پر مبنی یہ کمیشن ملکی دستور میں ترامیم تجویز کرے گا۔ ملکی دستور کی تیاری کا عمل گزشتہ دو سالوں سے حکومت اور اپوزیشن میں عدم اعتماد کے باعث التوا کا شکار ہے۔ اسی کمیشن کے اجلاس میں نئے انتخابات اور دوسرے معاملات کے لیے ایک نظام الاوقات ترتیب دیا جائے گا۔
تیونس میں ایک اور مثبت سیاسی پیش رفت یہ ہے کہ ملکی پارلیمان کا اجلاس آخرِ کار طلب کر لیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کا اجلاس طلب نہیں کیا جا رہا تھا کیونکہ ساٹھ اراکین نے اس کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ تیونس میں سیاسی بحران رواں برس جولائی سے جاری ہے جب سیکولر سیاستدان محمد براہیمی کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اپوزیشن اس کا الزام حکومت پر رکھتی ہے لیکن حکومت کے مطابق اس قتل میں تیونس و الجزائر میں سرگرام سلفی انتہا پسند ملوث ہیں۔