تیونس میں سیاسی قیدیوں کی ’رہائی‘
20 جنوری 2011تیونس حکام کا کہنا ہے کہ ان افراد کو قوم کے خلاف جرائم کے ارتکاب پر حراست میں لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ گرفتارشدگان سے سونا اور زیورات بھی برآمد ہوئے ہیں۔
اُدھر تیونس کے نگران رہنما فوادالمبزع نے نشریاتی خطاب میں ماضی کے دورِ حکومت سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے آزاد عدلیہ اور آزادی صحافت کو یقینی بنانے کا اعلان کیا ہے۔ نئی حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔ یہ پیش رفت گزشتہ کچھ عرصے سے جاری پرتشدد مظاہروں کے بعد سامنے آئی ہے۔
مظاہروں کا سلسلہ بھی تاحال جاری ہے، جن کے شرکاء سابق دورِ حکومت سے تعلق توڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ زین العابدین کی پارٹی ’آر سی ڈی‘ سے وابستہ تمام وزراء کو برخاست کرنے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ جو انقلاب وہ لائے ہیں، ان کی اُمیدوں کو اطمینان ایسے اقدامات کیے جانے پر ہی حاصل ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس انقلاب نے عرب دنیا کے آمریت پسندوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
فوادالمبزع کے اعلان کا مقصد مظاہرین کو خوش کرنا ہی بتایا جاتا ہے، جبکہ سیاسی قیدیوں کی رہائی بھی اسی سلسلے کی کڑی تصور کی جا رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق تیونس کے حالیہ پرتشدد مظاہروں میں ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، اس عالمی ادارے نے اس حوالے سے تفتیش کا عندیہ بھی دیا ہے۔
دوسری جانب سوئٹزرلینڈ نے تیونس کے معزول صدر زین العابدین اور ان کے رفقاء کے اپنے ہاں موجود اکاؤنٹس منجمد کر دیے ہیں۔ سوئس وزارت خارجہ کے مطابق وہ سرکاری فنڈز کے کسی بھی طرح کے غلط استعمال کو روکنا چاہتے ہیں۔
تیونس کے مرکزی بینک نے زین العابدین کے داماد کے زیرانتظام ایک مالیاتی ادارے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا ہے۔ قبل ازیں تیونس حکام نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ اس حوالے سے بیرون ملک کھولے گئے اکاؤنٹس اور جائیدادوں کی تفتیش کی جائے گی۔
زین العابدین جمعہ کو سعودی عرب فرار ہو گئے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ڈیڑھ ٹن سونا بھی لے گئے ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: عاطف بلوچ