تیونس میں غنوشی کی مخلوط حکومت کے قیام کی کوششیں
15 جنوری 2011اس وقت تیونس میں وزیراعظم غنوشی اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں ایک نئی مخلوط حکومت کے قیام کی کوششیں کر رہے ہیں اور بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق ملک میں عمومی صورت حال کشیدہ تو ہے تاہم فوجی اور نیم فوجی دستے مختلف شہروں میں اپنا گشت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ملکی دارالحکومت تیونس سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق موجودہ ملکی انتظامیہ نے ہفتے کے روز اعلان کیا کہ تیونس کی وہ فضائی اور زمینی سرحدیں جو کل جمعہ کے روز بند کر دی گئی تھیں، اب دوبارہ کھول دی گئی ہیں۔
تیونس کی سرکاری خبر ایجنسی TAP نے بتایا کہ ملکی اور غیر ملکی میڈیا سے جزوی طور پر نشر ہونے والی یہ رپورٹیں درست نہیں کہ تیونس کے تمام یا کچھ ہوائی اڈے ابھی تک بند ہیں۔ اس خبر ایجنسی نے حکومتی بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ملکی فضائی حدود کے ساتھ ساتھ وہ تمام ایئر پورٹ بھی دوبارہ کھول دیے گئے ہیں، جو احتیاطی طور پر جمعہ کے روز بند کر دیے گئے تھے۔
اسی دوران گزشتہ قریب 23 برسوں سے اقتدار میں چلے آ رہے صدر زین العابدین بن علی کے ملک سے فرار ہو کر سعودی عرب چلے جانے کے بعد قائمقام صدر کی ذمہ داریاں سنبھالنے والے وزیر اعظم محمد غنوشی آج اس لیے ملکی اپوزیشن جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ ملاقاتوں کی تیاریوں میں مصروف رہے کہ ایک نئی متحدہ قومی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کی جا سکے۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہے کہ آیا پورے تیونس میں گزشتہ کئی ہفتوں سے احتجاجی مظاہروں اور ہنگاموں پر اتر آنے والے شہری، جو غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور حکمرانوں کے جبر سے تنگ آ چکے تھے، وزیر اعظم اور قائمقام صدر محمد غنوشی کی قیادت میں نئی ملکی انتظامیہ کو قبول کر لیں گے۔ اس طرح کے خدشات کا سبب یہ ہے کہ محمد غنوشی ملک سے فرار ہو جانے والے صدر کے قریبی ساتھی رہے ہیں، اور جو 1999سے اب تک سربراہ حکومت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
دریں اثناء وزیر اعظم محمد غنوشی نے آج یہ تصدیق بھی کر دی کہ معزول صدر بن علی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ سعودی پہنچ چکے ہیں لیکن ساتھ ہی ان کے ابھی تک تیونس میں موجود اہل خانہ میں سے چند ایک کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔ غنوشی نے یہ نہیں بتایا کہ سابق صدر بن علی کے کون سے رشتہ داروں کو گرفتار کیا گیا ہے تاہم انہوں نے یہ ضرور کہا کہ یہ گرفتاریاں ایک عبوری اقدام ہیں۔
اسی دوران سرکاری ٹیلی وژن کی رپورٹوں کے مطابق دارالحکومت تیونس میں ریاستی آئینی کونسل کی طرف سے کہا گیا ہے کہ صدر کی غیر حاضری یا استعفے کی صورت میں وزیر اعظم نہیں بلکہ ملکی پارلیمان کے ایوان زیریں کے اسپیکر کو عارضی طور پر سربراہ مملکت کی ذمہ داریاں سنبھالنی چاہیئں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملک میں زیادہ سے زیادہ دو ماہ کے عرصے میں نئے صدر کا انتخاب آئینی طور پر لازمی ہو گا۔
قاہرہ سے آمدہ رپورٹوں میں عرب لیگ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ تیونس میں تمام سیاسی اور عوامی قوتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عصمت جبیں