تیونس: وزیر اعظم کی برطرفی اور صدر پر بغاوت کا الزام
26 جولائی 2021
صدر قیس سعید نے پر تشدد مظاہروں کے بعد وزیر اعظم ہشام مشیشی کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا ہے۔ حکمراں جماعت صدر پر بغاوت کا الزام عائد کر رہی ہے۔
اشتہار
تیونس کے صدر قیس سعید نے 25 جولائی اتوار کے روز ملک کے وزیر اعظم ہشام مشیشی کو برطرف کرنے کے بعد کہا کہ اب وہ ملک کے انتظامی اختیارات خود ہی سنبھالیں گے۔ یہ نئی سیاسی معرکہ آرائی اتوار کے روز حکومت مخالف پر تشدد مظاہروں کے بعد شروع ہوئی جس میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے تھے۔
نئی پیش رفت پر صدر نے کیا کہا؟
صدر قیس سعید نے وزیر اعظم ہشام مشیشی کو برطرف کرنے کے بعد کہا کہ وہ ایک نئے چیف کی سربراہی والی حکومت کی مدد سے انتظامی امور کا اقتدار خود ہی سنبھال لیں گے اور اس نئے چیف کی تقرری بھی وہ خود کریں گے۔
صدر قیس سعید نے تیونس کی پارلیمان کو بھی آئندہ ایک ماہ تک کے لیے معطل کرنے اور تمام نائبین کے اختیارات کو بھی معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی فوری خطرے کے پیش نظر آئین کی دفعہ 80 کے تحت انہیں ایسے احکامات صادر کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
انہوں نے کہا، ''آئین میں پارلیمان کو تحلیل کرنے کی اجازت نہیں ہے تاہم ایوان کی کارروائی معطل کرنے کی اجازت ہے۔''
تیونس کا رد عمل کیا رہا؟
صدر کے اعلان کے فوری بعد سینکڑوں لوگ خوشی سے سڑکوں پر نکل آئے جو حکومت کی برطرفی کا جشن منا رہے تھے۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس افراتفری کے دوران ہی فوج نے پارلیمان کی عمارت کا بھی محاصرہ کر لیا ہے۔
گرچہ صدر قیس سعید نے اپنے ان اقدامات کو آئین کے مطابق ہونے کا دعوی کیا تاہم پارلیمان کے اسپیکر راشد غنوشی نے صدر پر، ''انقلاب اور ملکی آئین کے خلاف بغاوت کا الزام عائد کیا۔''
غنوشی کی معتدل اسلامی جماعت النہضہ نے ان کا جو ویڈیو پیغام پوسٹ کیا ہے اس میں انہوں نے تیونس کی عوام سے اس ''بغاوت'' کے خلاف مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
اشتہار
مظاہرین کیا چاہتے ہیں؟
اس سے قبل اتوار کے روز ہی ہزاروں مظاہرین کووڈ 19 کی وجہ سے عائد بندشوں کی پرواہ کیے بغیر سڑکوں پر نکلے اور حکمراں جماعت اور وزیر اعظم کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نعرے لگا رہے تھے کہ باہر نکلو اور پارلیمان کو تحلیل کر دو۔ مظاہرین میں سے بہت سے پتھر بازی کر رہے تھے جس کی وجہ سے پولیس نے متعدد مظاہرین کو گرفتار بھی کیا۔
بہت سے مظاہرین النہضہ پارٹی کے دفتر میں بھی گھس گئے جو وزیر اعظم مشیشی کی ایک اتحادی جماعت ہے۔ ان مظاہروں کے پس منظر میں صدر قیس نے کہا، ''منافقت، غداری اور عوام کے حقوق سلب کر کے بہت سارے لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی کی گئی ہے۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''میں خبردار کرتا ہوں کہ اگر کسی نے ہتھیار اٹھایا، اور کوئی بھی اگر گولی چلاتا ہے تو پھر فوج بھی اس کو گولی سے ہی جواب دے گی۔''
سیاسی بحران کی وجہ کیا ہے؟
تیونس میں سن 2011 کے انقلاب کے بعد سے ہی سیاسی عدم استحکام جاری ہے جس کی وجہ سے زین العابدین بن علی کے اقتدار کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ سیاسی رہنما ایسی حکومتیں قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں جو دیر پا ہوں۔ گزشتہ ایک برس سے بھی کم عرصے میں ہشام مشیشی کی یہ تیسری حکومت تھی۔
شمالی افریقی ملک تیونس میں معاشی بحران کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس کی وجہ سے عائد بندشوں سے حالات مزید خراب ہوئے ہیں اور لوگوں
میں کافی بے چینی ہے۔ اسی وجہ سے گزشتہ تقریباً ایک برس سے صدر قیس سعید اور مشیشی کے درمیان سیاسی چپقلش جاری تھی۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)
تیونس کے سابق صدر کے خاندان کی عیاشی سے بد حالی کا دور
تیونس کے ڈکٹیٹر زین العابدین بن علی کے پرتعیش زندگی گزارنے والے خاندان کو اب بدحالی کا سامنا ہے۔ سن 2011 میں زین العابدین بن علی زور دار عوامی تحریک کی وجہ سے حکومت چھوڑ کر سعودی عرب فرار ہو گئے تھے۔
تصویر: AP
لیلیٰ بن علی اور ان کی اولاد
سابق تیونسی صدر زین العابدین بن علی کی چونسٹھ سالہ اہلیہ لیلیٰ بن علی کو ملک میں ’حجامہ‘ کی عرفیت سے پکارا جاتا ہے۔ سابق صدر سے شادی سے قبل وہ ایک ہیئر ڈریسر تھیں۔ اس وقت وہ سعودی عرب کے شہر جدہ میں مقیم ہیں۔ ان کے ساتھ ان کا بیٹا محمد اور بیٹی نسرین بھی رہتی ہے۔ انہیں تیونس میں کئی مقدمات کا بھی سامنا ہے۔ ان کی بیٹی نسرین نے ایک گلوکار سے شادی کی تھی, اب دونوں میں طلاق ہو چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بلحسن طرابلسی
اٹھاون سالہ بالحسن طرابلسی ایک دولت مند کاروباری شخصیت تھے اور انہیں ایک طرح سے بن علی کے خاندان کا ’گاڈ فادر‘ قرار دیا جاتا ہے۔ وہ عوامی انقلاب کے بعد اٹلی فرار ہو گئے تھے۔ اٹلی سے وہ کینیڈا پہنچے اور وہاں حکومت نے انہیں سن 2016 میں سیاسی پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ نئی تیونسی حکومت نے ان کی مصالحت کی درخواست بھی منظور نہیں کی۔ وہ سن 2019 سے فرانس کی جیل میں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Belaid
عماد الطرابلسي
چھیالس سالہ عماد الطرابلسی سن 2011 میں فرار ہوتے ہوئے ہوائی اڈے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ فرانس جانے والے تھے۔ وہ بن علی خاندان کے واحد اہم فرد ہیں جو تیونی جیل میں ہیں۔ انہیں جرمانے کے علاوہ ایک سو سال تک کی قید کا سامنا ہے۔ عماد نے ملکی عوام سے کھلے عام معافی بھی مانگی ہے۔ حکومت کے مصالحتی کمیشن نے ان کے ساتھ معاملات طے کرے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے لیکن ابھی فیصلہ باقی ہے۔
تصویر: dpa/picture alliance
لیلیٰ بن علی کے بھائیوں کے حالات
سابق تیونسی آمر کی بیوی لیلیٰ بن علی کے ایک بھائی منصف طرابلسی سن 2013 میں دماغ کے کینسر کی وجہ سے جیل میں دم توڑ چکے ہیں اور دوسرے بھائی مراد الطرابلسی سن 2020 میں کئی بیماریوں میں مبتلا رہنے کے بعد زندگی سے نجات پا چکے ہیں۔ ان کی ہلاکت کی وجہ جیل حکام کی جانب سے ان عدم نگہداشت بتائی گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
محمد صخر المطیری
صخر المطیری بن علی اور لیلیٰ بن علی کی لاڈلی بیٹی نسرین کے شوہر تھے۔ انتالیس سالہ صخر اب نسرین سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔ وہ پہلے قطر پہنچے اور پھر سیشیلز جزائر میں جا کر براجمان ہو گئے۔ ایسا بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے سیشیلز کی شہریت حاصل کر لی ہے۔ انہوں نے ملک کے حقائق کمیشن کے ساتھ مصالحت کی ڈیل طے کر لی ہے۔ انہیں واپس وطن آنے کے لیے پانچ سو ملین دینار (تیونسی کرنسی) دینے ہوں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa
مروان بن مبروک
زین العابدین کی پہلی بیوی کے بیٹے مروان بن مبروک ایک کاروباری ہیں اور میڈیا پر انہیں بہت کم دیکھا گیا۔ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ تیونس کے سب سے بڑے شاپنگ مال کے مالک ہیں۔ ان کا کاروبار خاصا پھیلا ہوا ہے۔ ان کے اثاثے سن 2011 میں منجمد کیے گئے تھے۔ سن 2019 میں ان کے اثاثوں میں سے بعض واپس کر دیے گئے۔ ان پر یورپی یونین کی جانب سے پابندی ہٹائے کے بعد موبائل کمپنی کے حصص بھی اب بحال ہو گئے ہیں۔
تصویر: Fethi Belaid/Getty Images/AFP
سليم شيبوب
سلیم شیبوبزین العابدین بن علی کے قریب ترین افراد میں سے ایک سلیم شیبوب ہیں۔ ان کی عمر اکسٹھ برس ہے۔ وہ تیونس کے سب سے بڑے اسپورٹس کلب کے مالک ہیں۔ وہ بن علی کی پہلی بیوی سے بیٹی درساف کے شوہر ہیں۔ وہ متحدہ عرب امارات سے سن 2014 میں واپس تیونس پہنچ گئے تھے۔ ان کا مصالحتی معاملہ زیرِ بحث ہے اور اس باعث زیرِ حراست بھی ہیں۔