تیونس کے صدر زین العابدین سعودی عرب فرار
15 جنوری 2011زین العابدین نے 23 برس اقتدار میں رہنے کے بعد جمعہ کو عہدہ صدارت چھوڑا، جس کے بعد وہ لاپتہ ہوگئے۔ بتایا گیا کہ پرتشدد مظاہروں کے باعث وہ ملک چھوڑ چکے ہیں۔ بعدازاں پتہ چلا کہ وہ سعودی عرب پہنچ گئے ہیں۔
ان حالات میں وزیر اعظم محمد غنوُچی نے سرکاری ٹیلی ویژن پر اعلان کیا کہ انہوں نے نگران صدر کے طور پر ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ وہ انتخابات کے انعقاد کے لیے اتحاد بنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد تک معاملات سنبھالے رہیں گے۔
اُدھر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے تیونس کے اس بحران کے ’جمہوری حل‘ پر زور دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعلامیے میں کہا گیا ہے، ’سیکریٹری جنرل اس بات سے آگاہ ہیں کہ زین العابدین ملک چھوڑ چکے ہیں۔‘
اعلامیے کے مطابق بان کی مون تیونس کے ان حالات پر نظر رکھے ہوئے اور انہوں نے وہاں کے حکام پر آزادیء اظہار رائے اور اجتماع کا احترام کرنے پر زور دیا ہے۔
خیال رہے کہ تیونس میں تقریباﹰ ایک ماہ سے جاری ہنگاموں میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ حکام ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر چکے ہیں جبکہ کرفیو بھی نافذ ہے۔
حکومت نے حالات پر قابو پانے کے لئے جمعہ کو فوج طلب کر لی تھی۔ عینی شاہدین کے مطابق دارالحکومت تیونس کی سڑکوں پر پرتشدد مظاہرین گھومتے رہے، جنہوں نے شہریوں اور املاک پر حملے کیے اور عمارتوں کی نذرآتش کیا۔
تیونس کے مرکز میں وقفے وقفے سے فائرنگ کی آواز سنی جاتی رہی جبکہ سکیورٹی اہلکار آنسو گیس کے شیل بھی فائر کرتے رہے۔ شہر میں لوٹ مار کا بازار بھی گرم رہا۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ دیکھنا ہو گا کہ مظاہرین نگران صدر محمد غنوُچی کو تسلیم کرتے ہوئے احتجاج ختم کرتے ہیں یا نہیں۔ غنوُچی 1999ء سے وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہیں اور زین العابدین کے قریبی ساتھی رہے ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: عاطف توقیر