تیونس کے وزیر اعظم کی انقلابیوں کو یقین دہانی
22 جنوری 2011وزیر اعظم غنوشی، قومی حکومت پر عوامی اعتماد بحال کرنے کے لئے مفرور صدر زین العابدین بن علی کی جماعت کو پہلے ہی چھوڑ چکے ہیں۔
تیونس کے عوام انہیں قبول کرنے کے لیے اس لیے بظاہر غیر آمادہ ہیں کیونکہ وہ بن علی کی حکومت میں بھی اسی عہدے پر براجمان تھے۔ تیونس کے قانون کے تحت عبوری حکومت دو ماہ کے اندر انتخابات کرانے کی پابند ہے جبکہ غنوشی نے چھ ماہ کے اندر انتخابات کروانے کا وعدہ کر رکھا ہے۔
ملکی ٹیلی وژن پر قوم سے اپنے پہلے براہ راست خطاب میں غنوشی کا کہنا تھا کہ 1956ء میں فرانس سے آزادی پانے کے بعد کے پہلے آزاد انتخابات منعقد کروائے جائیں گے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ تمام غیر جمہوری قوانین بھی ختم کردیں گے۔ اس ضمن میں انہوں نے انسداد دہشت گردی، میڈیا اور انتخابات سے متعلق قوانین کا تذکرہ کیا۔
تیونس میں یاسمین انقلاب کو آئے ہوئے ٹھیک ایک ہفتہ ہوگیا ہے۔ اتنے دن گزرنے کے باوجود سابق حکومت کے خلاف عوامی غیض و غضب میں کوئی کمی نہیں دیکھی جارہی۔ عوام بدستور اس مطالبے پر قائم ہیں کہ بن علی سے جُڑے تمام افراد کو حکومت سے علیحدہ کیا جائے۔
گزشتہ ہفتے ایک فرانسیسی اخبار کو دیے گیے انٹریو میں غنوشی کہہ چکے ہیں کہ اصل میں تیونس پر حکمرانی بن علی کی بیوی لیلیٰ کی تھی۔ وزیر اعظم غنوشی نے تسلیم کیا ہے کہ بن علی کی حکومت میں وہ بھی عام افراد کی طرح خوف میں مبتلا تھے۔
تازہ انٹرویو میں غنوشی کا کہنا ہے کہ، ’ ہم 180 ڈگری کے زویے پر مڑے ہیں، تیونس میں باصلاحیت افرادکی بہتات ہے اور اب پیچھے مڑ کر دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘
اقتدار کے ایوانوں سے باہر دارالحکومت کی سڑکوں پر اب بھی عوامی تحریک کی شدت برقرار ہے۔ انقلاب میں کلیدی کردار ادا کرنے والا تجارتی اتحاد UGTT وزیر اعظم غنوشی سمیت بن علی کے تمام سابق ساتھیوں پر 23 برس تک قومی خزانہ لوٹنے کا الزام عائد کرتا ہے۔
تیونس بھر میں گزشتہ روز سے ان 78 افراد کی یاد میں تین روزہ سوگ منایا جارہا ہے، جو مظاہرین پر پولیس کے مبینہ تشدد کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عاطف بلوچ