1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیونس کے کوسٹ گارڈز نے 267 مہاجرین کی جان بچا لی

24 جون 2021

تیونس کے کوسٹ گارڈز نے یورپ آنے والے سینکڑوں تارکین وطن کو ڈوبنے سے بچا لیا۔کشتی میں سوار مہاجرین میں اکثریت بنگلہ دیشی باشندوں کی تھی۔

Tunesien Boot mit 125 illegalen Einwanderern wurde gerettet
تصویر: Tasnim Nasri/AA/picture alliance

 

تیونس کے ساحلی محافظوں نے بتایا ہے کہ جمعرات کو یورپ کی طرف بڑھنے والی ایک کشتی میں شگاف پڑ جانے کے سبب اس کے ڈوبنے کے خطرات بہت زیادہ تھے تاہم کوسٹل گارڈز  کشتی پر سوار 267 مہاجرین کو بچانے میں کامیاب ہو گئے۔

جرمن چرچ عہدیداروں کو مہاجرین کی مدد کے الزام میں جرمانہ

خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق کشتی میں سوار مہاجرین میں اکثریت بنگلہ دیشی باشندوں کی تھی۔ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو  بیٹھنے کے خوف میں گرفتار ان مہاجرین کو تیونس کے ساحلی علاقے بنقردان پہنچا دیا گیا۔ تیونس کے جنوبی صوبے مدنین میں ریڈ کراس کے سربراہ منجی سلیم نے خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ تیونس کے ساحل پر کسی ایک 'ریسکیو آپریشن‘ میں بچائے جانے والے مہاجرین کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔ انسانی خدمت پر مامور اس تنظیم کے مطابق کشتی پر سوار مہاجرین میں 264 بنگلہ دیشی اور تین مصری تھے۔ منجی سلیم کے بقول غالباً یورپ آنے کی کوشش کرنے والے یہ مہاجرین لیبیا کے شہر زوارۃ سے کشتی پر سوار ہوئے تھے۔

ریکارڈ تعداد میں تارکین وطن ہسپانوی علاقے تک پہنچ گئے

تاحال ملنے والی اطلاعات سے فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوا کہ آیا مزید کوئی مسافر ڈوبا ہے یا نہیں۔ ہر سال ہزاروں افراد یورپ پہنچنے کا خواب آنکھوں میں سجائے تیونس اور لیبیا کے راستے اس خطرناک سفر پر چل پڑتے ہیں اور بہتر زندگی کی تلاش میں اکثر اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔

یونان میں مہاجرین کی حق تلفی، حکام کے خلاف سنگین الزامات

 

ماضی میں بھی تیونس کے کوسٹ گارڈز سینکڑوں غیر قانونی مہاجرین کی جان بچا تے رہے ہیں۔تصویر: Tasnim Nasri/AA/picture alliance

 ہر سال سینکڑوں جانوں کا ضیاع

رواں برس اپریل میں تیونس کے ساحل پر ایک کشتی کے ڈوبنے کے نتیجے میں کم از کم 41 تارکین وطن موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت آئی او ایم کے مطابق اس سال بحیرہ روم میں 550 سے زیادہ افراد پناہ کی تلاش میں اپنی زندگیاں کھو چُکے ہیں۔ یورپ کی طرف ہجرت کرنے والے یہ تارکین وطن اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر لکڑی یا ربڑ کی کشتیوں کے ساتھ ساتھ چپو سے چلنے والی کشتیوں تک میں سفر کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ ان کشتیوں میں بنیادی مشینوں اور پرزوں کی کمی ہوتی ہے اور ان میں حفاظت کے لیے کسی قسم کا سامان میسر نہیں ہوتا۔ نہ ہی یہ کشتیاں بحیرہ روم کے پانیوں میں باحفاظت اپنا سفر مکمل کرنے کی متحمل ہوتی ہیں۔

کورونا ویکسین: کویت میں تارکین وطن کو امتیازی رویے کا سامنا

جان کی بازی لگانے والے کون

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق جنگ، ظلم و ستم، قدرتی آفات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات کے سبب دنیا بھر میں تقریباﹰ 82.4 ملین افراد تحفظ کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تکلیف دہ صورتحال بچوں کی ہے۔ سینیگال: کشتی ڈوبنے کے واقعے میں 140 مہاجرین ہلاک

زندگی کی بازی لگا کر یہ رستہ اختیار کرنے والے افراد زیادہ تر افریقہ ، مشرق وسطیٰ کے بحران زدہ علاقے اور بنگلہ دیش سے آتے ہیں۔ تصویر: Tasnim Nasri/AA/picture alliance

بحیرہ روم غیر قانونی نقل مکانی کے دنیا کے خطرناک ترین راستوں میں سے ایک ہے۔ بہت سے افریقی پناہ گزین سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے میں ناکامی کے بعد لیبیا میں پھنس جاتے ہیں۔ طرابلس میں ان نوجوانوں، جن میں سے بہت سے ابھی بھی نابالغ ہیں، کو اکثر مشکل حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔

جرمنی: 'تارکین وطن کے لیے کورونا وائرس ایک اضافی بوجھ ہے'

بنگلہ دیش میں کوکس بازار کا مہاجر کیمپ دنیا کی سب سے بڑی پناہ گاہوں میں سے ایک ہے، جہاں میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں وہاں بچوں پر تشدد، منشیات، انسانی اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ چائلڈ لیبر اور چائلڈ میرج جیسے مسائل کے خدشات کا اظہار کرتی ہیں۔ ان حقائق پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس طرح کے خطرات مول لے کر بھی بنگلہ دیشی مہاجر کیوں بحیرہ روم کے ذریعے پورپ آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جمعرات کو تیونس کے ساحل پر خوش قسمتی سے بچا لیے جانے والے بنگلہ دیشی مہاجرین کا شمار بھی انہی انسانوں میں ہوتا ہے جو یہ خطرات مول لینے پر یقیناً مجبور تھے۔

ک م/ ع ا) ڈی پی اے، ای سی اے(

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں