تیونس: یاس اور امید کے درمیان
23 اکتوبر 2022تیونس کے صدر قیس سعید کی امیدوں کا رخ شاید اس وقت واشنگٹن کی طرف ہے۔ تیونس کے ایک وفد اور آئی ایم ایف نے حال ہی میں 1.9 بلین ڈالر قرض کے ابتدائی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ تیونس کو اپنے بے پناہ معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے فنڈز کی اشد ضرورت ہے۔ تاہم اس قرض کو ابھی آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ سے منظور ہونا باقی ہے، جو دسمبر میں اس کا جائزہ لے گا۔
تیونس کے 'داخلی معاملات میں مداخلت‘: امریکی سفیر کو طلب کر لیا گیا
ابھی یہ دیکھنا باقی ہےکہ کیا یہ معاہدہ تیونس کی عوام میں پائی جانے والی موجودہ بے اطمینانی کو کم کرنے میں کامیاب ہو سکے گا۔ گزشتہ ہفتے کے آخر میں ہزاروں شہریوں نے دارالحکومت تیونس کی سڑکوں پر صدر کے خلاف مظاہرے کیے۔ مظاہرین صدر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن اور ایک حکومتی ناقد اختلاف سلیم بوخدھیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس رجحان کا فطری نتیجہ ہے جس کی ایک علامت صدر قیس سعید خود بھی ہیں۔ صدر نے ملک کے حقیقی مسائل سے منہ موڑ لیا ہے، ایک عوامی سیاسی بیان بازی کو اپنایا ہے اور تیونس کو جدید بین الاقوامی برادری سے الگ تھلگ کر دیا ہے۔‘‘
تیونس میں آئینی ریفرنڈم، طاقت ایک شخص کے ہاتھ میں؟
بہت سے مظاہرین کی نظروں میں بھی قیس سعید ملک کی سیاسی بدحالی کے ذمہ دار ہیں، جس میں انہوں نے پارلیمنٹ کو تحلیل اور وزیر اعظم کو معزول کر کے مزید اضافہ کر دیا تھا۔ ان مظاہرین کے خیال میں قیس سعید سالوں سے جاری موجودہ اقتصادی بحران کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، جس میں یوکرینی جنگ کی وجہ سے مزید شدت آ چکی ہے۔
اس صورتحال میں اگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ منظور ہو گیا تو عام لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ یہ معاہدہ حکومتی سبسیڈیز کو ختم کرنے اور محصولات میں اضافے کے لیے ایسے اقدامات کی شرائط عائد کرتا ہے جس سے مہنگائی میں اضافہ یقینی ہو جاتا ہے۔ تیونس فورم فار اکنامک اینڈ سوشل رائٹس کے صدر عبدالرحمن ہدیلی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ حال اور مستقبل کی فکر ہے جو مظاہرین کو سڑکوں پر لا رہی ہے: ''ہم توقع کرتے ہیں کہ اگلے سال دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں مظاہرے اپنے عروج پر پہنچ جائیں گے۔‘‘
تیونس: صدر سعید کی 'آمرانہ حکومت' کے خلاف احتجاجی مظاہرے
مشکل اتحاد
لیکن ایک غیر سرکاری جرمن ادارے کونراڈ آڈیناؤر کے تیونس میں سربراہ مالٹے گائر کے مطابق یہ بات یقنی نہیں تھی کہ موجودہ مظاہرے طویل مدت کے لیے لوگوں کو سڑکوں پر رکھنے کے لیے کافی ہوں گے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، '' یہ مظاہرے دو کیمپس کی طرف سے منعقد کیے جارہے تھے۔‘‘
اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا ایک طرف پاپولسٹ فری دستورین پارٹی ہے، جو کہ بنیادی طور پر سابق صدر حبیب بورگیبا کے ساتھ ساتھ ان کے آمرانہ جانشین زین العابدین بن علی کے سیاسی وارث ہیں جنہوں نے 1987ء اور 2011 ء کے درمیان تیونس پر حکومت کی ۔ دوسری جانب منتخب حکومت کے خلاف بغاوت مخالف بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کا اتحاد سالویشن فرنٹ ہے، جس میں اسلام پسند النہدہ پارٹی بھی شامل ہے۔
مالٹے گائر کے مطابق اگرچہ منتظمین کئی ہزار لوگوں کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن تعداد کے لحاظ سے یہ اتنا متاثر کن نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ پارٹیاں ماضی کے مقابلے میں اس بار کم شہریوں کو متحرک کر سکی تھیں۔
معاشی مایوسیاں
پچھلے سالوں کے معاشی دھچکے کے تناظر میں بہت سے شہریوں نے ابتدائی طور پر امید ظاہر کی تھی کہ 2019 ء میں قیس سعید کی تقرری سے ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس۔ سپر مارکیٹوں میں آٹے، دودھ، مکھن، خوردنی تیل، چینی، کافی، چاول اور دیگر اہم اشیاء کی قلت ہے۔ ملک کے شمال میں، اکثر گیس اسٹیشنوں پر ایندھن نہیں ملتا۔
تیونس کے صدر نے بالآخر پارلیمان تحلیل کر دی
تیونس کے قومی ادارہ شماریات کے مطابق، آبادی مہنگائی سے بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے، جو ستمبر میں سرکاری طور پر 9.1 فیصد تھی۔
صدر دباؤ میں
صدر قیس سعید کی مقبولیت کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہوگا کہ آیا وہ معاشی بحران پر قابو پانے کے قابل ہیں۔ آڈیناؤر فاؤنڈیشن کے مالٹے گائر نے وضاحت کی، ''اگر آئی ایم ایف کا قرض منظور ہو جاتا ہے تو چاہے وہ اصل چار بلین ڈالر کی توقعات سے کافی کم ہو، کلیدی کردار ادا کرے گا لیکن فی الحال یہ کافی نہیں ہوگا۔‘‘
انہتیونس: صدر کی عدلیہ پر سخت گرفت کے بعد احتجاجی مظاہرےوں نے کہا کہ ملک کو بڑے پیمانے پرپھیلے ہوئے سرکاری ملازمین کے بہت بڑے مسئلے سے بھی نمٹنا ہے: ''اسے کم کرنا پڑے گا لیکن اس سے معاشی بحران مزید بڑھ جائے گا۔ ملک کو بے پناہ مسائل کا سامنا ہے اور قیس سعید کی صدارت کا مستقبل بھی اس بات پر منحصر ہے کہ وہ ان سے کیسے نمٹتے ہیں۔‘‘
یہ مضمون اصل میں جرمن زبان میں تحریر کیا گیا تھا۔
کیرسٹن کنِپ (ش ر/اب ا)