جائے جرم لارڈز پر پرامید پاکستان
12 جولائی 2016خیال کیا جا رہا ہے کہ لارڈز ٹیسٹ میچ فٹ بال کے یوروکپ، ریو اولمپکس اور بریگزٹ کی وجہ سے ماند پڑجانے والے کرکٹ کے ولایتی جوش خروش کو پروان چڑھانے کا سبب بنے گا۔ پہلے ٹیسٹ کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ چوبیس سالہ پاکستانی فاسٹ باولر محمد عامر ہیں جنہوں جنہوں نے سن 2010 میں لارڈز میں اُس وقت کی ٹیم کے کپتان کے حکم پر بالنگ پارٹنر محمد آصف کے ہمراہ پیسے لیکر نو بال کیے تھے۔ عامر اب کرکٹ کے سب سے مقدس خیال کیے جانے والے مقام لارڈز پراپنا وہی پاپ دھونا چاہتے ہیں۔
آج انہیں پریکٹس کے لیے سینٹ جانز ووڈ کی زمین پر تو قدم رکھنے سے کوئی نہیں روک سکا لیکن برطانوی آسمان انکی گھات میں ہے۔ گریم سوان، کیون پیٹرسن، اسٹیو ہارمیسن سمیت نئے اور پرانے انگریز کھلاڑی عامرمخالف جذبات کو مسلسل ہوا دے رہے ہیں۔ سمرسیٹ میں اپنی طلسمی سوئنگ کی معرفت محمد عامرکو چار وکٹیں لیتا دیکھ کرانگریزی خیمے کے اوسان خطا ہوچکے ہیں۔اب انہیں نفسیاتی دباو میں لانے کے لیے اسپاٹ فکسنگ کا پرانا راگ الاپا جا رہا ہے۔
سابق انگریز آف اسپنر وک مارک کہتے ہیں کہ عامر نے اپنےآخری ٹیسٹ میں چھ وکٹیں لی تھیں۔ آج چھ سال بعد بھی بالوں کے رنگ کے سوا ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور انگلینڈ انکی سوئنگ کے سحر میں گرفتارہوسکتا ہے۔
مہربان لندن
پاکستان نے سن 1954 کے فضل محمود والے اوول ٹیسٹ سے سن 2010 کے اوول ٹیسٹ تک انگلینڈ کی سرزمین پر ٹیسٹ کرکٹ میں جو دس فتوحات حاصل کی ہیں ان میں سے آٹھ لندن میں ملی ہیں۔ اس طرح یہ شہر پاکستان پر ہمیشہ مہربان رہا ہے ۔ سن 1982 میں پاکستان نے محسن خان کی ڈبل سینچری اور مدثر نذر کی چھ وکٹوں کے ذریعے پہلی بار لارڈز ٹیسٹ جیتا تھا۔ سن 1992 میں وسیم اکرم اور سن 1996 میں یہاں وقار یونس نے اپنا اور ٹیم کا لوہا منوایا۔
اس بار بھی پاکستان کی اصل طاقت اسکی باولنگ ہے۔ محمد عامر کے ساتھ پاکستان کے سب سے تیز رفتار باولر وہاب ریاض اور دنیا کے نمبر ایک لیگ اسپنر یاسر شاہ ہوں گے جو صرف بارہ ٹیسٹ میچوں میں چھہتر وکٹوں کی اعلیٰ کارکردگی دکھا چکے ہیں۔ یاسر شاہ ایشیا سے باہر پہلی بار ٹیسٹ کرکٹ کھیلیں گے۔ یاسر شاہ اس وقت عالمی رینکنگ میں چوتھے نمبر ہیں۔ اور دنیا کا نمبر ایک باولر بننے کےلیے انہوں نے اس سیریز میں تیزی سے ٹرن ہونیوالی ایک نئی گگلی متعارف کرانے کا بھی دعوی کیا ہے۔
کامیابیاں جھوٹی نہ تھیں
اوپننگ اور لمبی ٹیل ہونے وجہ سے پاکستانی بیٹنگ پر خدشات کے بادل ہمیشہ منڈلاتے رہتے ہیں۔ انگلینڈ میں ویسے بھی رواں سیزن میں بارش کی جھڑی لگی ہوئی ہے اسلیے امکان ہے کہ یہ کم اسکور والی یا ’لواسکورنگ‘ سیریز ہوگی۔ پاکستان کی موجودہ بیٹنگ لائن اپ میں مصباح، اظہرعلی اوراسد شفیق جیسے بڑے نام شامل ہیں تاہم انکے کارنامے ایشیا سے باہر نہ ہونے کے برابر ہیں۔
مہمان ٹیم میں صرف یونس خان ایسے کھلاڑی ہیں جنہیں انگلینڈ کی سرزمین پر سینچری بنانے کا اعزاز حاصل ہے جو انہوں نے دس سال پہلے لیڈز میں اسکور کی تھی۔ تاہم
سمرسیٹ اور سَسکس کے خلاف پاکستانی بیٹنگ کی تین سینچریاں اور پانچ نصف سینچریاں دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ جیمز اینڈرسن کے بغیر لارڈز پر اترنے والی انگلش باولنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔
لارڈز میں ویسے بھی یہ سیزن بیٹنگ کے لیے سازگار رہا ہے اور اب تک کوئی فرسٹ کلاس میچ فیصلہ کن ثابت نہیں ہوا۔ اس لیے سردست پاکستانی بلے بازوں کے پاس سنہری موقع ہے کہ وہ ثابت کرسکیں کہ دبئی اور شارجہ میں انکی کامیابیاں جائز اور درس تھیں۔
انگلینڈ کے زخم
انگلینڈ نے متحدہ عرب امارات میں گزشتہ سال پاکستان کے ہاتھوں دو صفر کی سبکی اٹھانے کے بعد حال ہی میں جنوبی افریقہ اور سری لنکا کو ٹیسٹ سیریز میں بری طرح شکست دی ہے لیکن اس ٹیم کے صف اول کے فاسٹ باولر جیمز اینڈرسن کا کندھا زخمی ہے۔ اینڈرسن نے سری لنکا کے خلاف دو ہوم ٹیسٹ میچوں میں اکیس وکٹیں دس رنز فی کس سے حاصل کی تھیں۔ انکے علاوہ مستند آل راونڈر بین اسٹاکس اور سب سے تیز باولر مارک وُوڈ بھی زخمی ہیں۔ نک کامپٹن کی مسلسل ناکامی نے انہیں کاونٹی کرکٹ سے بھی دورکر دیا ہے۔ انکی جگہ جو روٹ وَن ڈاون کھیلیں گے۔ مڈل آرڈر میں جمیز ونس اور جانی بیئرسٹو کے ساتھ گیری بیلنس کو منتخب کیا گیا ہے جنکی اپنی بیٹنگ کا حال نک کامپٹن سے مختلف نہیں۔ انگلینڈ کی باولنگ کا دورومدار اسٹوؤرٹ براڈ اور اسٹیو فن کےعلاوہ ناتجربہ کارکرس ووکس اور جیک بال پر ہوگا۔ بال لارڈز پر اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلیں گے۔ اس صورت حال میں سیریز کا نتیجہ غیرمتوقع بھی ہو سکتا ہے۔