جادو ٹونے کے لیے بھورے افراد کا ’جانوروں کی طرح شکار‘
3 مارچ 2015جینیاتی نقص کی وجہ سے بہت سے افراد کا رنگ بھورا ہو جاتا ہے۔ ایسے افراد کو ’البینو‘ بھی کہا جاتا ہے۔ افریقی ملکوں ملاوی اور تنزانیہ میں ان کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ایسے افراد کو قتل کر دیا جاتا ہے اور اُن کے اعضاء بلیک مارکیٹ میں بیچ دیے جاتے ہیں۔ یہ اعضاء روایتی رسومات اور جادو ٹونے میں استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ دولت اور طاقت حاصل کی جا سکے۔
ملاوی میں ’البینو افراد کی ایسوسی ایشن (اے پی اے ایم) نے کہا ہے کہ افریقہ کے اس جنوبی ملک میں رواں برس کے پہلے دو ماہ ہی میں تین ایسے افراد کو قتل کرتے ہوئے ان کے اعضاء کاٹ لیے گئے۔ اسی طرح تمام تر اقدامات کے باوجود گزشتہ برس بھی وہاں تین بھورے افراد کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ حکومت کے مطابق رواں برس جنوری میں ایک ایسی خاتون کی لاش ملی تھی، جس کا سر، بازو اور ٹانگیں کٹی ہوئی تھیں۔ ملکی پولیس ایسے متعدد بھورے افراد کی تلاش میں بھی ہے، جو ماضی میں اچانک لاپتہ ہو گئے تھے۔
بھورے (البینو) افراد کی تنظیم کے سربراہ بونیفیس مسا کا جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا جانوروں کی طرح شکار کیا جا رہا ہے۔‘‘ ملاوی کے دس ہزار بھورے افراد اس تنظیم کا حصہ ہیں۔ بونیفیس کہتے ہیں کہ جن افراد کو قتل کیا جاتا ہے، ان میں سے زیادہ تر کے اعضاء ہمسایہ ملک تنزانیہ میں فروخت کر دیے جاتے ہیں۔ تنزانیہ میں بھی سن دو ہزار کے بعد سے سّتر سے زائد بھورے افراد کو قتل کیا جا چکا ہے۔
اعضاء کی مہنگے داموں فروخت
جنوری میں تنزانیہ حکومت نے بھی اس لرزہ خیز تجارت کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا۔ تنزانیہ حکومت نے ملک میں موجود ان تمام جادوگروں کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی تھی، جو اپنے گاہکوں کو بھورے افراد کے اعضاء کے ذریعے دولت سے مالا مال کرنے کے وعدے کرتے ہیں۔ ان ملکوں کی زیادہ تر آبادی ایسے جادو ٹونے کی مذمت کرتی ہے لیکن اس کے باوجود وہاں بھورے افراد کے اعضاء کی بلیک مارکیٹ موجود ہے۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ جس شخص کے پاس اعضاء ہوتے ہیں، ان کے پاس جادوئی طاقت آ جاتی ہے۔
تنزانیہ پولیس کے مطابق ابھی حال ہی میں دارالسلام میں ایک بھورے شخص کے اعضاء کا سیٹ، جن میں ہاتھ، پاؤں، اعضائے تولید، کان، زبان اور ناک شامل تھے، 75 ہزار ڈالر میں فروخت کیا گیا۔ بھورے افراد کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کے مطابق جب سے تنزانیہ حکومت نے کریک ڈاؤن شروع کیا ہے، وہاں کے جرائم پیشہ افراد بھی ملاوی آ چکے ہیں۔ اندازوں کے مطابق تنزانیہ میں البینو افراد کی تعداد تقریباﹰ دو لاکھ ہے۔
بھورے (البینو) افراد کی تنظیم کے سربراہ بونیفیس مسا کا کہنا ہے کہ بھورے افراد کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں سے پہلے بھی ملک میں ایسے افراد کی زندگی کوئی آسان نہیں تھی، ’’جس ملک کی اکثریت سیاہ فام ہو، وہاں سفید یا بھوری رنگت والے انسانوں کا رہنا آسان نہیں ہے۔‘‘ معاشرے میں اور اسکولوں میں ایسے افراد کو مختلف مضحکہ خیز ناموں سے پکارا جاتا ہے۔
بہت سے بچوں کو اس وجہ سے برے سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کا باپ یہ سمجھتا ہے کہ اس کی بیوی کے کسی دوسرے شخص کے ساتھ تعلقات ہیں۔ ملاوی میں آج تک کسی بھورے شخص کے قاتل پر مقدمہ نہیں چلایا گیا ہے۔ تنزانیہ میں بھی سن دو ہزار کے بعد سے صرف دس افراد کو سزا سنائی جا چکی ہے۔