فلائیڈ کی پہلی برسی سے قبل ان کی یاد میں ریلیوں کا اہتمام
24 مئی 2021
امریکا میں سیاہ فام جارج فلائیڈ کے قتل کی پہلی برسی سے قبل ہی بہت سے کارکنان اور ان کے اہل خانہ نے انہیں یاد کرنے کے لیے ملاقات کی۔ گزشتہ برس ایک سفید فام پولیس افسر نے گھٹنوں سے دبا کر جارج کو قتل کر دیا تھا۔
اشتہار
امریکی ریاست منی سوٹا کے شہر منی ایپلز میں 23 مئی اتوار کے روز سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی موت کی پہلی برسی سے دو روز قبل ہی ایک ریلی کی گئی جس میں ان کے اہل خانہ سمیت بہت سے سماجی کارکنان نے شرکت کی۔ 25 مئی منگل کے روز جارج فلوئیڈ کے انتقال کو ایک برس مکمل ہو جائے گا جب پولیس کے ہاتھوں وہ ہلاک ہو گئے تھے۔
منی ایپلز کے ایک سفید فام پولیس افسر ڈیرک شوائن نے 46 سالہ نہتھے فلائیڈ کو اپنے گھٹنوں کے نیچے تقریبا نو منٹ تک دبا کر رکھا تھا جس سے ان کی موت ہو گئی تھی۔ ایک ماہ قبل ہی ریاست کی ایک عدالت نے اس کے لیے پولیس افسر ڈیرک شوائن کو قتل کا قصور وار ٹھہرایا ہے۔
جارج فلائیڈ کی موت کے بعد ہی امریکا بھر میں سیاہ فام شہریوں کی زندگيوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے والی تحریک "بلیک لائیو میٹر" پھر سے چل پڑی تھی اور اس کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہوئے تھے۔
اتوار کے روز فلائیڈ کے اہل خانہ، انسانی حقوق کے بہت سے کارکنان اور پولیس کے تشدد کی زد میں آنے والے بہت سے دیگر متاثرین کے اہل خانہ اس موقع پر منی ایپلز کے ڈاؤن ٹاؤن میں واقع اس عدالت کے باہر جمع ہوئے جہاں تقریباً ایک ماہ قبل ہی اس مقدمے کی سماعت مکمل ہوئی تھی۔
اس میں شرکت کرنے والے بہت سے لوگوں نے اپنے ہاتھوں میں جارج فلائیڈ، فلانڈو کیسل اور ایسے بہت سے دیگر سیاہ فام افراد کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں جو پولیس کے ہاتھوں قتل ہو چکے ہیں۔ شرکاء بلیک لائیو میٹر کی تحریک کی طرز پر ہی نعرہ لگا رہے تھے، "اگر انصاف نہیں، تو امن بھی نہیں۔"
اشتہار
گزشتہ ایک برس تکلیف دہ رہا
اس ریلی کے دوران نے بہت سے کارکنان، فلائیڈ کی فیملی کے کئی ارکان اور ان کے وکیل بین کرم سمیت بہت سے دیگر افراد نے اس اجتماع سے خطاب کیا۔ فلائیڈ کی بہن بریٹ نے اس موقع پر اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا، "یہ بڑا طویل برس رہا۔ یہ بہت ہی تکلیف دہ سال رہا۔ میں ان کی آواز بن کر کھڑی ہوں گی۔ میں ان کے بدلے کھڑی ہوں گی اور ان کے لیے تبدیلی کی ضامن بنوں گی۔"
سیاہ فاموں کے لیے جد و جہد کرنے والے معروف سماجی کارکن ریورنڈ ال شارپٹن نے اس موقع پر کہا کہ جاج فلائیڈ کی ہلاکت، "امریکی تاریخ کا سب سے بڑا بدنام داغ ہے۔" ان کا کہنا تھا، "جو کچھ بھی جارج یا پھر بہت سے دیگر افراد کے ساتھ ہوا، اس سے صرف امریکا میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں تبدیلی آ رہی ہے۔ انہوں نے سوچا کہ اس سے ان کا کچھ نہیں بگڑے گا اور پھر آپ سب وبا کے دوران ہی انصاف کے لیے گلیوں میں نکل پڑے، سیاہ اور سفید فام، نوجوان اور بزرگ سب مل کر۔"
نیو یارک میں بھی جارج فلائیڈ کی یاد میں ریلی
اتوار کے روز جارج فلائیڈ کی یاد میں نیو یارک کے بروکلین میں بھی ایسی ہی ایک بڑی ریلی ہوئی جس میں ان کے بھائی ٹیرنس نے شرکت کی۔ اس کے موقع پر ٹیرنس نے حامیوں سے کہا کہ انہیں پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے دیگر متاثرین کی خاطر بھائی جارج فلائیڈ کے نام کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔
پولیس تشدد کے خلاف غم وغصہ اب پوری دنیا میں پھیلتا ہوا
02:26
جارج فلائیڈ کی برسی سے پہلے اس واقعے کے سلسلے میں کئی دیگر پروگرام بھی ہوئے اور اس سے متعلق افراد نے آن لائن میٹنگ کر کے مستقبل کے لائحہ عمل پر بھی بات چيت کی۔ اطلاعات کے مطابق پیر کے روز بھی ایسے مزید پروگرام طے ہیں جبکہ برسی کے دن یعنی منگل کے روز ایک کمیونٹی فیسٹیول کے ساتھ ساتھ شمعیں روشن کر کے مارچ کرنے بھی پروگرام ہے۔
ص ز/ ج ا ( اے ایف پی، اے پی)
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔