جارج فلوئیڈ کی ہلاکت، نسل پرستی کے خلاف مذہبی رہنما متحرک
12 جون 2020انیس سو ساٹھ کی دہائی میں امریکا میں شہری حقوق کے خلاف تحریک کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکا میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنما زوردار انداز سے نسل پرستی کے خاتمے اور نسلی بنیادوں پر سماجی تفریق کے خلاف سرگرم ہیں۔
جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے بعد امریکا بھر میں سیام فام افراد کے گرجا گھروں میں قدامت پسند اور معروف مذہبی رہنما پہنچ رہے ہیں۔ ترقی پسند کیتھولکس، پروٹیسٹنٹس، مسلمان، یہودی سیناگوگ اور دیگر مذہبی گروپ ملک بھر میں پولیس اصلاحات اور نسل پرستی کے خاتمے کے اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
جارج فلوئڈ کی مبینہ پولیس تشدد کے سبب ہلاکت: امريکا کا سياسی منظرنامہ
25 مئی کو 46 سالہ سیاہ فام فلوئیڈ اس وقت دم توڑ گیا تھا، جب مینیاپولِس پولیس سے وابستہ ایک سفید فارم اہلکار نے اس کی گردن کو قریب دس منٹ تک اپنے گھٹنے سے دبائے رکھا۔ اس دوران فلوئیڈ نے کئی مرتبہ کہا کہ وہ سانس نہیں لے پا رہا ہے۔ فلوئیڈ کا یہی جملہ اب نسل پرستی کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں بھی استعمال ہو رہا ہے۔اس پولیس اہلکار کو نوکری سے برخاست کر کے اس پر دوسرے درجے کے قتل کا مقدمہ چلایا جا رہا ہے، مگر امریکا سمیت دنیا بھر میں مظاہرین اور انسانی حقوق کے کارکنان بڑے پیمانے پر اصلاحات کے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
کیتھولک پیس اینڈ جسٹس گروپ Pax Christi کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جونی زوکوویٹچ کہتے ہیں، "ہم نسل پرستی کے خلاف احتجاج نہایت نچلی سطح تک دیکھ رہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلم رہنما، یہودی ربی اور کیتھولک پادری سب ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے سڑکوں پر ہیں۔"
گزشتہ ہفتے امریکا میں ایک ہزار سے زائد یہودی، مسلم، مسیحی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے اہم رہنماؤں نے ایک آن لائن کانفرنس میں شرکت کی، جس میں امریکا میں سیاہ فام افراد کے خلاف منظم تشدد کے خاتمے کے لیے تجاویز پر غور کیا گیا۔
یہودی ربی جونا ڈوو پیسنرنے کہا، "مذہبی طبقے کے جانب سے اس معاملے پر بہت گہرا اور واضح ردعمل سامنے آیا ہے۔ لوگ بہت غصے میں ہیں۔ لوگ اس نسل پرستی پر برہم ہیں۔ لوگ کورونا وائرس کے خلاف خراب حکومتی ردعمل پر بھی غصے میں ہیں۔ لوگ اسلاموفوبیا اور سامیت دشمنی میں اضافے پر برہم ہیں۔ لوگ سفید فام برتری کے نظریے پر برہم ہیں۔"
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ رواں برس ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ مذہبی گروپوں کی جانب سے اپنی بھرپور حمایت پر تکیہ کیے ہوئے تھے مگر جارج فلوئیڈ کے واقعے کے بعد چلنے والی تحریک اور اس پر ٹرمپ کی تنقید صدارتی انتخابات پر شدید اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ امریکا میں ٹیکس ضوابط کے مطابق کسی بھی عبادت گاہ سے کوئی سیاسی بیان نہیں دیا جا سکتا، تاہم امریکی قانون مذہبی رہنماؤں کو ذاتی بنیادوں پر اپنے خیالات کے اظہار سے نہیں روکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف مذہبی رہنما ڈونلڈ ٹرمپ پر کھلے عام تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔