جارج فلوئیڈ کے قتل کا ملزم سابق پولیس افسر ضمانت پر رہا
8 اکتوبر 2020
امریکی ریاست منیسوٹا میں سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ کے قتل کے ملزم سابق پولیس افسر ڈیرک شوان کو دس لاکھ ڈالر کے مچلکے پر ضمانت مل گئی ہے۔
اشتہار
عدالتی ریکارڈز کے مطابق سابق پولیس اہلکار ڈیرک شوان کو اس جیل سے رہا کر دیا گیا ہے جہاں انہیں گرفتاری کے بعد سے رکھا گیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف مظاہرے کے خدشات کے پیش نظر ریاست منیسوٹا کے گورنر نے سکیورٹی کے سخت انتظامات کا حکم دیا ہے اور مظاہروں کی صورت میں نیشنل گارڈز تعینات کرنے کی بات کہی گئی ہے۔
جارج فلوئیڈ کے اہل خانہ کے وکیل نے اس فیصلے کے خلاف اپنے رد عمل میں کہا، '' ڈیریک شوان کی مچلکے پر رہائی جارج فلوئیڈ کے اہل خانہ کے لیے ایک تکلیف دہ یاد دہانی ہے کہ ہم ابھی بھی جارج کے لیے انصاف کے حصول سے کافی دور ہیں۔''
46 سالہ جارج فلوئیڈ کو ریاست مِنیسوٹا کے مرکزی شہر منی ایپلس میں 25 مئی کی شام کو چار سفید فام پولیس والوں نے حراست میں لیا تھا۔ اس سے متعلق ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ سڑک پر پیٹ کے بل پڑے ہوئے ہیں اور ایک پولیس اہلکار اپنے گھٹنے سے ان کی گردن پر پوری طاقت سے دباؤ ڈال رہا ہے۔ فلوئیڈ کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے اور وہ پولیس سے التجا کررہے تھے ''پلیز، مجھے سانس لینے میں پریشانی ہورہی ہے۔ مجھے جان سے نہ مارنا۔'' لیکن پولیس کی کارروائی کے چند منٹوں کے اندر جارج کا وہیں سڑک پر دم نکل جاتا ہے۔
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M:.Schreiber
7 تصاویر1 | 7
اس ویڈیو کے منظر عام آنے کے بعد امریکا بھر میں پولیس کی زیادتیوں، خاص طور پر سیاہ فام افراد کو نشانہ بنانے کے خلاف، مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔ گردن کو اپنے گھٹنے سے دبانے والے پولیس اہلکار ڈیرک شوان پر ارادتا ًقتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا جبکہ ان کے دیگر تین ساتھی تھامس لین، جے کیونگ اور ٹاؤ تھاؤ پر قتل میں اعانت کا کیس درج کیا گیا تھا۔ اس کیس میں ان تین پولیس اہلکاروں کو پہلے ہی ضمانت مل گئی تھی۔
ڈیرک شوان کو اس شرط پر ضمانت پر رہا کیا گیا ہے کہ وہ تمام عدالتی کارروائیوں کے وقت عدالت میں حاضر رہیں گے۔ وہ قانون نافذ کرنے والے کسی بھی ادارے میں کام نہیں کر سکیں گے، تمام لائسنس والے اسلحے حکام کے حوالے کر دیں گے اور فلوئیڈ کے اہل خانہ سے ان کو کوئی رابطہ نہیں رکھنا ہوگا۔
ابھی یہ بات واضح نہیں کہ آخر ڈیرک شوان کو ضمانت کے لیے دس لاکھ ڈالر کی بڑی رقم کیسے اور کہاں سے موصول ہوئی ہے۔
جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے بعد امریکا میں پولیس کی زیادتیوں کے خلاف غم و غصے کی لہر امریکا سے عالمی سطح پر پھیل گئی تھی۔ پیرس، برلن اور کوپن ہیگن سمیت یورپ کے مختلف شہروں میں اس کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں بھی نسل پرستی اور پولیس کے امتیازی سلوک کے خلاف لوگوں نے احتجاج کیا تھا۔
ص ز / ج ا (اے پی، روئٹرز)
پولیس تشدد کے خلاف غم وغصہ اب پوری دنیا میں پھیلتا ہوا