جاسوسی سے متعلق نئے انکشافات: امريکی انٹیلیجنس کا دفاعی موقف
عاصم سلیم
9 مارچ 2017
امريکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے وکی ليکس کے تازہ انکشافات کے ردعمل میں کہا ہے کہ اس ويب سائٹ پر شائع کردہ مواد سے امريکی شہریوں کی جانیں خطرے میں ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی متاثر ہو رہی ہے۔
اشتہار
سی آئی اے کے مطابق وکی لیکس پر جاری کردہ مواد کے باعث واشنگٹن کے مخالفين کو بھی مدد مل رہی ہے۔ فرانسيسی خبر رساں ادارے اے ايف پی کی امريکی دارالحکومت واشنگٹن سے جمعرات نو مارچ کے روز موصولہ رپورٹوں کے مطابق سی آئی اے کی خاتون ترجمان ہيتھر فرٹز ہورنياک نے اپنے ايک بيان ميں کہا کہ امريکی عوام کے ليے وکی ليکس کے وہ تمام انکشافات تشويش کا باعث ہونے چاہييں، جن کا مقصد دہشت گردوں سے عام شہريوں کے تحفظ کے سلسلے میں ملکی انٹيليجنس کی اہلیت کو نقصان پہنچانا ہے۔
فرٹز ہورنیاک نے بدھ کے روز جاری کردہ اپنے بيان ميں کہا، ’’ايسے انکشافات نہ صرف امريکی دستوں اور آپريشنز کو ٹھيس پہنچاتے ہيں بلکہ ان سے امريکا کے مخالفين تک ايسی معلومات بھی پہنچتی ہيں، جن کی مدد سے وہ ہميں نقصان پہنچا سکتے ہيں۔‘‘ فرٹز ہورنياک نے سی آئی اے کے سائبر آپريشنز کا دفاع بھی کيا۔ ان کے بقول بيرونی قوتوں کے خلاف ملکی دفاع کو يقينی بنانے کے ليے جديد ترين ٹيکنالوجی کو بروئے کار لانا اس خفیہ ادارے کی ذمہ داری ہے۔
حساس اداروں کے خفيہ دستاويزات اور معلومات عام کرنے والی ويب سائٹ وکی ليکس نے منگل کے روز سی آئی اے کی قريب نو ہزار دستاويزات جاری کی تھیں۔ ان دستاويزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سينٹرل انٹيليجنس ايجنسی (سی آئی اے) کے ہيکرز صارفين کے گھروں ميں موجود ٹيلی وژن جیسے آلات تک کو جاسوسی کے ليے استعمال کر سکتے ہيں۔ اسی طرح عام لوگوں کے اسمارٹ فونز وغيرہ پر مختلف ايپليکيشنز تک رسائی حتیٰ کہ کسی کی گاڑی کو کنٹرول کرنا بھی ممکن ہو چکا ہے۔
کئی ماہرين کا کہنا ہے کہ يہ دستاويزات جعلی نہيں۔ گزشتہ روز امريکی ذرائع ابلاغ پر يہ بتايا گيا کہ امریکا کے مرکزی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کی جانب سے ان دستاويزات کے اجراء کے معاملے کی تحقيقات شروع کی جا رہی ہيں۔ تاحال البتہ يہ واضح نہيں کہ وکی ليکس نے کن ذرائع سے يہ دستاويزات حاصل کيں۔
امريکا ميں ڈيجيٹل حقوق کے ليے سرگرم ادارے سينٹر فار ڈيموکريسی اينڈ ٹيکنالوجی سے منسلک ايک ماہر جوزف ہال کے مطابق يہ دستاويزات گزشتہ برس کيے گئے واشنگٹن حکومت کے اس وعدے پر ایک سواليہ نشان لگا ديتی ہيں، جس کے مطابق حکومت نے سافٹ ويئر ميں ايسے نازک معاملات يا کمزوريوں کے حوالے سے ٹيکنالوجی کمپنيوں کو معلومات فراہم کرنا تھيں۔ اس سلسلے میں يہ بات واضح کی گئی تھی کہ کسی بھی سکيورٹی نقص کی اطلاع متعلقہ کمپنيوں کو فراہم کی جائے گی تاکہ اس کا حل تلاش کيا جا سکے۔
امريکا میں سول لبرٹيز يونين نے بھی اس پيش رفت کے حوالے سے ٹوئٹر پر اپنا ايک پيغام جاری کيا ہے، جس ميں کہا گیا ہے کہ جب حکومت کو کسی سافٹ ويئر ميں خامياں نظر آئیں، تو اسے ان کے حل تلاش کرنے ميں مدد دینا چاہیے، نہ کہ ان خامیوں کی نشاندہی نہ کی جائے اور عام صارفين متاثر ہوتے رہیں۔
جاسوسی کے ہنگامہ خیز واقعات
جاسوس خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے بڑے عجیب و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ دنیا میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز پر ایک نظر۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
پُر کشش جاسوسہ
ہالینڈ کی نوجوان خاتون ماتا ہری نے 1910ء کے عشرے میں پیرس میں ’برہنہ رقاصہ‘ کے طور پر کیریئر بنایا۔ ماتا ہری کی رسائی فرانسیسی معاشرے کی مقتدر شخصیات تک بھی تھی اور اس کے فوجی افسروں اور سایستدانوں کے ساتھ ’تعلقات‘ تھے۔ اسی بناء پر جرمن خفیہ ادارے نے اسے جاسوسہ بنایا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد فرانسیسی خفیہ ادارے نے بھی اسے اپنے لیے بطور جاسوسہ بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ یہ پیشکش قبول کرنے پر وہ پکڑی گئی۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
روزن برگ فیملی اور بم
1950ء کے عشرے کے اوائل میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کیس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس جوڑے پر امریکا کے ایٹمی پروگرام سے متعلق خفیہ معلومات ماسکو کے حوالے کرنے کا الزام تھا۔ کچھ حلقوں نے اس جوڑے کے لیے سزائے موت کو دیگر کے لیے ایک ضروری مثال قرار دیا۔ دیگر کے خیال میں یہ کمیونسٹوں سے مبالغہ آمیز خوف کی مثال تھی۔ عالمی تنقید کے باوجود روزن برگ جوڑے کو 1953ء میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
چانسلر آفس میں جاسوسی
جرمنی میں ستّر کے عشرے میں جاسوسی کا ایک اسکینڈل بڑھتے بڑھتے ایک سیاسی بحران کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ تب وفاقی جرمن چانسلر ولی برانٹ کے مشیر گنٹر گیوم (درمیان میں) نے بطور ایک جاسوس چانسلر آفس سے خفیہ دستاویزات کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی خفیہ سروس شٹازی کے حوالے کیں۔ اس بات نے رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا کہ کوئی مشرقی جرمن جاسوس سیاسی طاقت کے مرکز تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ برانٹ کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/E. Reichert
’کیمبرج فائیو‘
سابقہ طالب علم اینتھنی بلنٹ 1979ء میں برطانیہ کی تاریخ میں جاسوسی کے بڑے اسکینڈلز میں سے ایک کا باعث بنا۔ اُس کے اعترافِ جرم سے پتہ چلا کہ پانچ جاسوسوں کا ایک گروپ، جس کی رسائی اعلٰی حکومتی حلقوں تک تھی، دوسری عالمی جنگ کے زمانے سے خفیہ ادارے کے جی بی کے لیے سرگرم تھا۔ تب چار ارکان کا تو پتہ چل گیا تھا لیکن ’پانچواں آدمی‘ آج تک صیغہٴ راز میں ہے۔
تصویر: picture alliance/empics
خفیہ سروس سے کَیٹ واک تک
جب 2010ء میں امریکی ادارے ایف بی آئی نے اَینا چیپ مین کو روسی جاسوسوں کے ایک گروپ کی رکن کے طور پر گرفتار کیا تو اُسے امریکا میں اوّل درجے کی جاسوسہ قرار دیا گیا۔ قیدیوں کے ایک تبادلے کے بعد اَینا نے روس میں فیشن ماڈل اور ٹی وی اَینکر کی حیثیت سے ایک نئے کیریئر کا آغاز کیا۔ ایک محبِ وطن شہری کے طور پر اُس کی تصویر مردوں کے جریدے ’میکسم‘ کے روسی ایڈیشن کے سرورق پر شائع کی گئی۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Shipenkov
مسٹر اور مسز اَنشلاگ
ہائیڈرون اَنشلاگ ایک خاتونِ خانہ کے روپ میں ہر منگل کو جرمن صوبے ہَیسے کے شہر ماربُرگ میں اپنے شارٹ ویو آلے کے سامنے بیٹھی ماسکو میں واقع خفیہ سروس کے مرکزی دفتر سے احکامات لیتی تھی اور یہ سلسلہ عشروں تک چلتا رہا۔ آسٹریا کے شہریوں کے روپ میں ان دونوں میاں بیوی نے یورپی یونین اور نیٹو کی سینکڑوں دستاویزات روس کے حوالے کیں۔ 2013ء میں دونوں کو جاسوسی کے الزام میں سزا ہو گئی۔
تصویر: Getty Images
شٹراؤس جاسوس؟
جرمن سیاسی جماعت CSU یعنی کرسچین سوشل یونین کے سیاستدان فرانز جوزیف شٹراؤس اپنی وفات کے عشروں بعد بھی شہ سرخیوں کا موضوع بنتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ غالباً وہ موجودہ سی آئی اے کی پیش رو امریکی فوجی خفیہ سروس او ایس ایس کے لیے کام کرتے رہے تھے۔ اس ضمن میں سیاسی تربیت کے وفاقی جرمن مرکز کی تحقیقات شٹراؤس کے ایک سو ویں یومِ پیدائش پر شائع کی گئیں۔ ان تحقیقات کے نتائج آج تک متنازعہ ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
آج کے دور میں جاسوسی
سرد جنگ کے دور میں حکومتیں ڈبل ایجنٹوں سے خوفزدہ رہا کرتی تھیں، آج کے دور میں اُنہیں بات چیت سننے کے لیے خفیہ طور پر نصب کیے گئے آلات سے ڈر لگتا ہے۔ 2013ء کے موسمِ گرما میں امریکی ایجنٹ ایڈورڈ سنوڈن کے انٹرویو اور امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی 1.7 ملین دستاویزات سے پتہ چلا کہ کیسے امریکا چند ایک دیگر ملکوں کے ساتھ مل کر عالمگیر مواصلاتی نیٹ ورکس اور کروڑوں صارفین کے ڈیٹا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔