جاسوسی کے نئے الزامات پر امریکی سینیٹروں کی برہمی
28 فروری 2014یہ بیان ڈیموکریٹک امریکی سینیٹروں رون وائڈن، مارک اُڈال اور مارٹن ہائنرک کی جانب سے سامنے آیا ہے۔ انہوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا: ’’آج ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ سے ہمیں بہت تکلیف پہنچی ہے جس میں امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ قانون کا احترام کرنے والے امریکیوں سمیت لاکھوں افراد اور ان کے خاندانوں کی نجی ویڈیوز حاصل کر کے اسٹور کی گئیں حالانکہ ان پر کوئی شبہ نہیں تھا اور نہ ہی وہ کسی غلط کام میں ملوث تھے۔‘‘
یہ رپورٹ برطانوی اخبار گارڈین نے شائع کی ہے جس کے مطابق خفیہ اداروں نے انٹرنیٹ کمپنی یاہو کے لاکھوں صارفین کے ویب کیمروں کی تصاویر حاصل کیں۔
امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے سابق کنٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن نے برطانیہ کی خفیہ ایجنسی جی سی ایچ کیو کی دستاویزات کا انکشاف کیا تھا۔ گارڈین کی رپورٹ کے مطابق ان دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مخصوص پروگرام کے ذریعے لاکھوں افراد کے ویب کیمروں سے تصاویر حاصل کی گئیں۔
اس اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2008ء کے دوران چھ ماہ کے ایک عرصے میں برطانوی خفیہ ادارے نے دنیا بھر سے یاہو کے 18 لاکھ صارفین کے ویب کیمروں کو اپنا ہدف بنایا۔
اس کے ردِ عمل میں امریکی ڈیموکریٹک سینیٹروں نے مزید کہا ہے: ’’اگر یہ رپورٹ درست ہے تو یہ قانون کا احترام کرنے والے شہریوں کی نجی زندگی اور شہری آزادیوں کے سلسلے میں ایسے حیرت انگیز عدم احترام کا ثبوت ہے، جو قطعی طور پر ناقابلِ قبول ہے۔‘‘
انہوں نے پہلے سے جاری جاسوسی کے پروگراموں کے جامع جائزے کے تناظر میں نئے الزامات کی تفتیش کا وعدہ بھی کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بات کو مدِنظر رکھا جائے گا کہ آیا اس میں امریکی ایجنسیوں کا بھی کوئی ہاتھ رہا ہے۔
اِن سینیٹروں کا کہنا تھا: ’’اس بات کی یقین دہانی کروانے کے لیے یہ اور بھی واضح ہوتا جا رہا ہے کہ ’غیرملکی‘ جاسوس ادارے قانون کا احترام کرنے والے شہریوں کی غیر ضروری نگرانی یا بلاوجہ امریکا کی بڑی صنعتوں کی کاروباری مسابقت کو نقصان نہ پہنچائیں۔‘‘
انٹرنیٹ کمپنی یاہو نے بھی اس رپورٹ پر سخت ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔ اس امریکی ٹیکنالوجی کمپنی کے ایک ترجمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بھیجے گئے ایک ای میل پیغام میں کہا: ’’ہم اس سرگرمی سے نہ ہی آگاہ تھے اور نہ ہی اس کا حصہ تھے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا: ’’اگر یہ رپورٹ سچ پر مبنی ہے تو اس سے ہمارے صارفین کی پرائیویسی کی خلاف ورزی کی ایک نئی سطح ظاہر ہوتی ہے جو کسی طور پر بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔‘‘