1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

طالبان کا، جاندار اشیا کی تصاویر میڈیا پر نہ دکھانے کا عزم

14 اکتوبر 2024

فغانستان میں طالبان کی وزارت اخلاقیات نے آج پیر 14 اکتوبر کو ایک قانون پر عملدرآمد کا عزم ظاہر کیا ہے جس کے تحت نیوز میڈیا کو تمام جاندار چیزوں کی تصاویر شائع کرنے سے روک دیا جائے گا۔

طلبان کی حکومت آنے سے قبل ایک افغان ٹی وی شو کا منظر
طالبان حکومت نے عزم ظاہر کیا ہے کہ نیوز میڈیا کو تمام جاندار چیزوں کی تصاویر شائع کرنے سے روک دیا جائے گا۔تصویر: picture-alliance/abaca/AA/H. Sabawoon

 طالبان حکومت نے حال ہی میں قانون سازی کا اعلان کیا ہے جس کے تحت 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے نافذ کیے گئے اسلامی قوانین کی سخت تشریحات کو باضابطہ شکل دی گئی ہے۔

’’اس قانون کا اطلاق پورے افغانستان پر ہوتا ہے… اور اس پر بتدریج عمل درآمد کرایا جائے گا‘‘، یہ بات طالبان حکومت کی وزارت نیکی کے ترجمان سیف الاسلام خیبر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتائی۔

طالبان حکومت میں افغان صحافیوں سے زیادتیوں کا سلسلہ جاری

’یہ کھیل شریعت سے متصادم ہے‘، افغان طالبان

انہوں نے مزید کہا کہ حکام لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے کے لیے کام کریں گے کہ زندہ چیزوں کی تصاویر اسلامی قانون کے خلاف ہیں۔

سیف الاسلام خیبر کا مزید کہنا تھا، ''قانون کے نفاذ میں جبر کی کوئی جگہ نہیں ہے … یہ صرف مشورہ ہے، اور لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش ہےکہ اس طرح کی چیزیں شریعت (قانون) کے خلاف ہیں اور ان سے گریز کیا جانا چاہیے۔‘‘

نئے قانون میں نیوز میڈیا کے لیے کئی قواعد و ضوابط کی وضاحت کی گئی ہے جن میں تمام جاندار چیزوں کی تصاویر کی اشاعت پر پابندی کے علاوہ ان کے لیے یہ حکم بھی شامل ہے کہ وہ اسلام کا مذاق نہ اڑائیں یا توہین نہ کریں اور اسلامی قانون کی خلاف ورزی نہ کریں۔

افغانستان میں 1996 سے 2001 تک جاری رہنے والے طالبان کے دور اقتدار میں ملک بھر میں ٹیلی ویژن اور زندہ چیزوں کی تصاویر شائع کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھیتصویر: WAKIL KOHSAR /AFP/Getty Images

نئے قانون کے ان پہلوؤں کو ابھی تک سختی سے نافذ نہیں کیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ طالبان حکام باقاعدگی سے لوگوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔

طالبان حکومت کی وزارت نیکی کے ترجمان سیف الاسلام خیبر کے مطابق، ''اب تک، میڈیا سے متعلق قانون کی دفعات پر عمل درآمد کے لیے بہت سے صوبوں میں کوششیں جاری ہیں لیکن یہ تمام صوبوں میں شروع نہیں ہوئیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کے جنوبی گڑھ قندھار اور ہمسایہ صوبہ ہلمند کے ساتھ ساتھ شمالی تخار میں بھی کام شروع ہو گیا ہے۔

قندھار میں صحافیوں نے پیر کے روز اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں وزارت کی جانب سے کوئی بیان موصول نہیں ہوا ہے اور نہ ہی پولیس نے انہیں تصاویر اور ویڈیوز لینے پر روکا ہے۔

افغانستان میں 1996 سے 2001 تک جاری رہنے والے طالبان کے دور اقتدار میں ملک بھر میں ٹیلی ویژن اور زندہ چیزوں کی تصاویر شائع کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی، لیکن اقتدار میں واپسی کے بعد سے اب تک اس طرح کا حکم وسیع پیمانے پر نافذ نہیں کیا گیا۔

افغان لڑکیوں کا معاشی خود مختاری کا عزم

03:48

This browser does not support the video element.

غیر ملکی حمایت یافتہ حکومتوں کے خلاف دو دہائیوں کی طویل شورش کے بعد جب طالبان حکام نے ملک کا کنٹرول سنبھالا تو افغانستان میں میڈیا کے 8400 ملازمین تھے۔ میڈیا انڈسٹری کے ذرائع کے مطابق، اس پیشے میں اب صرف 5100 ملازمین باقی ہیں، جن میں 560 خواتین بھی شامل ہیں۔

رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کی جانب سے مرتب کردہ پریس فریڈم رینکنگ میں افغانستان مجموعی طور پر 180 ممالک کی فہرست میں 122 ویں نمبر سے 178 ویں نمبر پر آگیا ہے۔

ا ب ا/ک م (اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں