1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جان اور جواد نے تاریخ رقم کر دی

عدنان اسحاق14 جولائی 2015

پہلی نظر میں اسلامی انقلاب کے حامی اور ایک سابق ڈیموکریٹ سینیٹر کے مابین بہت ہی کم مماثلت دکھائی دیتی تھی تاہم اس کے باوجود جان کیری اور جواد ظریف نے تمام مشکلات کو دور کرتے ہوئے اپنے نام تاریخ میں رقم کرا لیے ہیں۔

تصویر: Reuters/State Department/Handout

ویانا میں جوہری مذاکرات کی کامیابی کے بعد بنائی جانے والی تصاویر میں دبلے پتلے طویل القامت امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ جان کیری کو ان کے مہنگے سوٹ میں جب کہ ان کے ایرانی ہم منصب جواد ظریف کو، جو ان سے قد میں چھوٹے اور فربہ ہیں، کالر کے بغیر والی اپنی روایتی شرٹ پہنے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ کئی مہینوں سے جاری اس بہت نازک مذاکراتی عمل کے دوران کبھی ان دونوں نے خود کو فولاد کی طرح مضبوط ظاہر کیا اور کبھی یہ ایک دوسرے کے چالاک حریف دکھائی دیے۔

جوہری مذاکرات کے دوران سائیکلنگ کے ایک حادثے میں کیری کی ایک ٹانگ کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی تھی لیکن یہ ٹوٹی ہوئی ہڈی بھی ان کی رفتار کو کم نہ کر سکی۔ مذاکراتی عمل کے دوران ان دنوں کے مابین اتنی بے تکلفی ہو چکی ہے کہ اب یہ ایک دوسرے کو جان اور جواد کہہ کر پکارتے ہیں۔ کبھی کبھار یہ دونوں ایک دوسرے سے لطیفوں کا تبادلہ بھی کرتے ہیں تاہم اس کے باوجود ان کے مابین عزت و احترام کا رشتہ بھی قائم ہے۔

تصویر: Reuters/Brian Snyder

ماہرین کے مطابق جان کیری اور جواد ظریف ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے بڑھنے والے خدشات کو صحیح وقت پر دور کرنے کے لیے بالکل صحیح انتخاب تھے۔ اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان دونوں کو نوبل کے امن انعام کے لیے بھی نامزد کیا جا سکتا ہے۔

55 سالہ جواد ظریف کو ایرانی صدر حسن روحانی نے ستمبر 2013ء میں وزیر خارجہ بنایا تھا اور انہیں ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں کے فوری خاتمے اور جوہری تنازعے کو حل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ وہ روانی سے انگریزی بولتے ہیں اور انہوں نے امریکا میں ڈینوَر سے بین الاقوامی قانون کے شعبے میں ڈاکٹر کی ڈگری لے رکھی ہے۔

دوسری جانب جان کیری کے لیے تقریباً دو سال تک جاری رہنے والے مذاکرات کا نتیجہ خیز ہونا ا ایک ایسی تاریخ ساز فتح ہے، جس کے اثرات مستقبل میں بھی نقش ہوتے چلے جائیں گے۔ 71 سالہ کیری عقیدے کے اعتبار سے کیتھولک مسیحی ہیں۔ گزشتہ برس مشرق وسطٰی میں قیام امن کی کوششوں میں ناکامی کے بعد کیری کی سفارت کاری کی یہ ایک بڑی فتح ہے۔ ایرانی امور کی ایک امریکی ماہر سوزانا مالونی کے مطابق، ’’دو پرانے مخالفین کے مابین معاہدے کا طے پانا ایک نجی اور پیشہ ورانہ فتح ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں