آج سے ٹھیک 35 برس قبل یہ 18 اپریل کا ہی دن تھا جب پاکستانی کرکٹ کے عظیم بلے باز جاوید میانداد نے بھارت کے خلاف ایک میچ کی آخری گیند پر ایک زور دار چھکا مارا تھا۔ اس چھکے نے کرکٹ کی تاریخ میں بہت کچھ بدل دیا۔
اشتہار
یہ بات ہے 18 اپریل 1986ء کی۔ ون ڈے میچ ہے کرکٹ کے میدان میں دو روایتی حریفوں پاکستان اور بھارت کے درمیان جو متحدہ عرب امارات کے شہر شارجہ کے کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلا گیا۔ خیال رہے کہ یہ میچ اولین آسٹریلیشا کپ کا فائنل تھا اور دونوں ٹیموں کے لیے 'زندگی اور موت‘ جیسی اہمیت رکھتا تھا۔
بھارت نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں سات وکٹوں کے نقصان پر 245 رنز بنائے تھے اور پاکستان کو یہ میچ جیتنے کے لیے 246 رنز بنانا تھے۔ پاکستانی اننگز کی ابتداء کچھ زیادہ اچھی نہیں تھی اور صرف 61 رنز پر پاکستان کی تین وکٹیں گِر چکی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیائے کرکٹ کے عظیم بلے باز اپنا بلا لہراتے میدان میں اترے اور بھارتی بالرز کے دباؤ کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔
سرسری دوڑا دینے والا فائنل
یوں تو جاوید میانداد نے اپنے ون ڈے کیریئر میں سات دیگر سنچریاں بھی بنائیں مگر اس دن ان کے ناقابل شکست 116 رنز نے کرکٹ کی تاریخ کا ایک ایسا میچ بنا دیا جس نے نہ صرف کروڑوں بھارتی کرکٹ شائقین کے دل توڑ دیے بلکہ اس میچ کی ریکارڈنگ دیکھنے والے لوگوں کی ریڑھ کی ہڈی میں آج بھی سرسری دوڑ جاتی ہے۔ اس میچ میں جاوید میانداد نے تین چوکے لگائے اور تین ہی چھکے۔
تاریخی 'سنگل‘
اس میچ کے آخری اوور کی سکینڈ لاسٹ گیند پر توصیف احمد کا سنگل پاکستانی شائقین کے لیے یادگار و تاریخی سنگل تھا۔ کیونکہ اگر وہ یہ رن بنا کر میانداد کو اسٹرائیک نا دیتے تو شاید صورتحال کچھ اور ہی ہو جانا تھی۔
فائنل کی آخری گیند
آسٹریلیشا کپ کے اس فائنل کو جیتنے کے لیے پاکستان کو میچ کی آخری گیند پر چار رنز کی ضرورت تھی، بالر تھے چیتن شرما جو اس میچ میں بھارت کی جانب سے سب سے زیادہ تین وکٹیں حاصل کر چکے تھے اور ان کا سامنا کر رہے تھے جاوید میانداد جو میچ کو کئی مرتبہ اونچ نیچ کے بعد اس فیصلہ کن مرحلے تک لے آئے تھے۔ پاکستان کا اسکور اس وقت 242 تھا۔ میچ کی اس آخری گیند کے ساتھ پاکستانی اور بھارتی کرکٹ شائقین کی تمام تر امیدیں جڑی ہوئی تھیں۔
اور پھر وہ یادگار لمحہ آیا جب چیتن شرما کی گیند پر جاوید میانداد نے زور دار چھکا مار کر نا صرف اس میچ میں پاکستان کو فتح دلادی بلکہ اس میچ کو کرکٹ کی تاریخ کا ایک انتہائی یادگار میچ بھی بنا دیا۔
اشتہار
اس میچ نے کیا کچھ بدلا؟
اس میچ سے قبل پاکستان نے آئی سی سی کی جانب سے کرائے جانے والے کسی ٹورنامنٹ ٹائٹل اپنے نام نہیں کیا تھا جبکہ ایک روزہ میچوں میں میں بھارتی ٹیم کے خلاف کسی فائنل میں کامیابی حاصل نہیں کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستانی ٹیم ایسے ہر میچ میں ایک نفسیاتی دباؤ میں رہا کرتی تھی۔ مگر جاوید میانداد کے اس چھکے اور پاکستان کی جیت نے پاکستانی کھلاڑیوں پر یہ نفسیاتی دباؤ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔
پاکستان نے صرف اسی آسٹریلیشیا کپ کا ہی فاتح نہیں بنا بلکہ یہ ٹورنامنٹ صرف تین بار ہی منعقد ہو سکا اور ہر مرتبہ پاکستان نے یہ کپ اپنے نام کیا۔
اس ٹورنامنٹ میں شریک ہونے والی ٹیم ہی کم و بیش 1992ء کے ورلڈ کپ میں بھی کھیلی اور 18 اپریل 1986ء کو آسٹریلیشیا کپ میں فتح حاصل کرنے اور آخری گیند تک لڑ جانے اور جیت اپنے نام کرنے کا یہی جذبہ ہی پاکستانی کپتان عمران خان اور ورلڈ کپ کھیلنے والی ٹیم میں موجزن تھا۔
ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں غیر یقینی صورتحال سے دو چار رہنے کے بعد بالآخر پاکستانی ٹیم نے انگلینڈ کی ٹیم کو بھی اسی انداز سے شکست دی جس طرح وہ آسٹریلیشا کپ میں بھارت کو دے چکی تھی۔
بین الاقوامی کرکٹ کے متنازع ترین واقعات
آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کا حالیہ بال ٹیمپرنگ اسکینڈل ہو یا ’باڈی لائن‘ اور ’انڈر آرم باؤلنگ‘ یا پھر میچ فکسنگ، بین الاقوامی کرکٹ کی تاریخ کئی تنازعات سے بھری پڑی ہے۔ دیکھیے عالمی کرکٹ کے چند متنازع واقعات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: REUTERS
2018: آسٹریلوی ٹیم اور ’بال ٹیمپرنگ اسکینڈل‘
جنوبی افریقہ کے خلاف ’بال ٹیمپرنگ‘ اسکینڈل کے نتیجے میں آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے کپتان اسٹیون اسمتھ اور نائب کپتان ڈیوڈ وارنر پرایک سال کی پابندی عائد کردی ہے۔ کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں آسٹریلوی کھلاڑی کیمرون بن کروفٹ کو کرکٹ گراؤنڈ میں نصب کیمروں نے گیند پر ٹیپ رگڑتے ہوئے پکڑ لیا تھا۔ بعد ازاں اسٹیون اسمتھ اور بن کروفٹ نے ’بال ٹیمپرنگ‘ کی کوشش کا اعتراف کرتے ہوئے شائقین کرکٹ سے معافی طلب کی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Krog
2010: اسپاٹ فکسنگ، پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کی بدترین ’نو بال‘
سن 2010 میں لندن کے لارڈز کرکٹ گراؤنڈ پر سلمان بٹ کی کپتانی میں پاکستانی فاسٹ باؤلر محمد عامر اور محمد آصف نے جان بوجھ کر ’نوبال‘ کروائے تھے۔ بعد میں تینوں کھلاڑیوں نے اس جرم کا اعتراف کیا کہ سٹے بازوں کے کہنے پر یہ کام کیا گیا تھا۔ سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف برطانیہ کی جیل میں سزا کاٹنے کے ساتھ پانچ برس پابندی ختم کرنے کے بعد اب دوبارہ کرکٹ کھیل رہے ہیں۔
تصویر: AP
2006: ’بال ٹیمپرنگ کا الزام‘ انضمام الحق کا میچ جاری رکھنے سے انکار
سن 2006 میں پاکستان کے دورہ برطانیہ کے دوران اوول ٹیسٹ میچ میں امپائرز کی جانب سے پاکستانی ٹیم پر ’بال ٹیمپرنگ‘ کا الزام لگانے کے بعد مخالف ٹیم کو پانچ اعزازی رنز دینے کا اعلان کردیا گیا۔ تاہم پاکستانی کپتان انضمام الحق نے بطور احتجاج ٹیم میدان میں واپس لانے سے انکار کردیا۔ جس کے نتیجے میں آسٹریلوی امپائر ڈیرل ہارپر نے انگلینڈ کی ٹیم کو فاتح قرار دے دیا۔
تصویر: Getty Images
2000: جنوبی افریقہ کے کپتان ہنسی کرونیے سٹے بازی میں ملوث
سن 2000 میں بھارت کے خلاف کھیلے گئے میچ میں سٹے بازی کے سبب جنوبی افریقہ کے سابق کپتان ہنسی کرونیے پر تاحیات پابندی عائد کردی گئی۔ دو برس بعد بتیس سالہ ہنسی کرونیے ہوائی جہاز کے ایک حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ ہنسی کرونیے نے آغاز میں سٹے بازی کا الزام رد کردیا تھا۔ تاہم تفتیش کے دوران ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کپتان کی جانب سے میچ ہارنے کے عوض بھاری رقم کی پشکش کی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Zieminski
2000: میچ فکسنگ: سلیم ملک پر تاحیات پابندی
سن 2000 ہی میں پاکستان کے سابق کپتان سلیم ملک پر بھی میچ فکسنگ کے الزام کے نتیجے میں کرکٹ کھیلنے پر تاحیات پابندی عائد کی گئی۔ جسٹس قیوم کی تفتیشی رپورٹ کے مطابق سلیم ملک نوے کی دہائی میں میچ فکسنگ میں ملوث پائے گئے تھے۔ پاکستانی وکٹ کیپر راشد لطیف نے سن 1995 میں جنوبی افریقہ کے خلاف ایک میچ کے دوران سلیم ملک کے ’میچ فکسنگ‘ میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP
1981: چیپل برادران اور ’انڈر آرم‘ گیندبازی
آسٹریلوی گیند باز ٹریور چیپل کی ’انڈر آرم باؤلنگ‘ کو عالمی کرکٹ کی تاریخ میں ’سب سے بڑا کھیل کی روح کے خلاف اقدام‘ کہا جاتا ہے۔ سن 1981 میں میلبرن کرکٹ گراؤنڈ پر نیوزی لینڈ کے خلاف آخری گیند ’انڈر آرم‘ دیکھ کر تماشائی بھی دنگ رہ گئے۔ آسٹریلوی ٹیم نے اس میچ میں کامیابی تو حاصل کرلی لیکن ’فیئر پلے‘ کا مرتبہ برقرار نہ رکھ پائی۔
تصویر: Getty Images/A. Murrell
1932: جب ’باڈی لائن باؤلنگ‘ ’سفارتی تنازعے‘ کا سبب بنی
سن 1932 میں برطانوی کرکٹ ٹیم کا دورہ آسٹریلیا برطانوی کپتان ڈگلس جارڈین کی ’باڈی لائن باؤلنگ‘ منصوبے کی وجہ سے مشہور ہے۔ برطانوی گیند باز مسلسل آسٹریلوی بلے بازوں کے جسم کی سمت میں ’شارٹ پچ‘ گیند پھینک رہے تھے۔ برطانوی فاسٹ باؤلر ہیرالڈ لارووڈ کے مطابق یہ منصوبہ سر ڈان بریڈمین کی عمدہ بلے بازی سے بچنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ تاہم یہ پلان دونوں ممالک کے درمیان ایک سفارتی تنازع کا سبب بن گیا۔