جاپانی شہر ناگویا میں قدرتی ماحول کے تحفظ کی کوششیں
28 اکتوبر 2010آج بدھ 27 اکتوبر سے یہ کانفرنس اپنے حتمی سہ روزہ مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ دُنیا بھر سے گئے ہوئے وُزراء اور دیگر مندوبین قدرتی ماحول کے تحفظ کے موضوع پر اقوام متحدہ کا ایک سمجھوتہ طے کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ عالمی بینک نے بھی ناگویا کانفرنس کے شرکاء پر زور دیا ہے کہ وہ کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت معیشت اور انسانی بہبود کے لئے جنگلات، سمندروں اور دریاؤں کے فوائد کو ضرور پیشِ نظر رکھیں۔
جس بیس نکاتی سمجھوتے کے لئے کوششیں کی جا رہی ہیں، اُس کا تعلق 2020ء تک بقا کے خطرے سے دوچار جانوروں اور نباتات کو بچانے کے لئے نئے اہداف مقرر کرنے سے ہے۔ واضح رہے کہ اِس سے پہلے حیاتیاتی تنوع کے خاتمے میں ’نمایاں کمی‘ کے لئے 2010ء تک کے عرصے کے لئے جو ہدف مقرر کیا گیا تھا، وہ پورا نہیں کیا جا سکا ہے۔
کانفرنس میں حکومتوں اور کاروباری اداروں کو ایسے عمومی اقدامات کا قائل اور پابند کرنے کی اُمید کی جا رہی ہے، جن سے بقا کے خطرے سے دوچار ماحولیاتی نظاموں کو بچانے میں مدد ملے گی، مثلاً جنگلات کو، جو ہماری ہوا کو صاف کرتے ہیں، حشرات کو، جو فصلوں کی پیداوار میں معاونت کرتے ہیں اور مونگے کی چٹانوں کو، جو مچھلیوں کی پیداوار میں مدد دیتی ہیں۔
کانفرنس کے حتمی سہ روزہ مرحلے کے آغاز پر عالمی بینک کے سربراہ رابرٹ زوئیلک نے شرکاء سے، جن میں زیادہ تر ملکوں کے وُزرائے ماحول بھی شامل تھے، اپنے خطاب میں کہا کہ تمام ملکوں کے وُزرائے مالیات اور کاروباری اداروں کو بھی اِس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ قدرتی ماحول ہماری خوراک، ادویات، سیاحت اور صنعت کے لئے کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔
زوئیلک نے کہا، ’خشکی اور سمندروں کی پیداواری صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے اور اُس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی نظاموں کی وہ خدمات بھی ختم ہوتی جا رہی ہیں، جو انسانوں کو غربت کے چُنگل سے نکالنے کے سلسلے میں بے حد اہمیت رکھتی ہیں۔ بقا کے خطرے سے دوچار انواع ہماری آنکھوں کے سامنے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوتی جا رہی ہیں‘۔
کانفرنس میں شریک ممالک کو بقا کے خطرے سے دوچار انواع کے بچاؤ کے لئے کسی سمجھوتے پر پہنچنے میں مشکل پیش آ رہی ہے کیونکہ مسئلہ یہ ہے کہ طے کردہ اہداف کے حصول پر آنے والے اخراجات کون ادا کرے گا۔ حیاتیاتی تنوع کے بچاؤ کے لئے آج کل سالانہ تین ارب ڈالر خرچ کئے جا رہے ہیں تاہم بعض ترقی پذیر ممالک اِس رقم میں ایک سو گنا تک کے اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
کوئی نیا سمجھوتہ طے ہو جانے کی صورت میں غریب ممالک کو اُس منافع میں سے منصفانہ حصہ مل سکے گا، جو مثلاً ادویات ساز ادارے اُن کے جینیاتی وسائل استعمال کرتے ہوئے حاصل کرتے ہیں۔ اِس مطالبے کی تائید کرتے ہوئے جرمن وزیر ماحول نوربرٹ روئٹگن نے کہا:’’ظاہر ہے کہ جو ممالک صنعتی اور ترقی یافتہ ممالک کو اپنے جینیاتی وسائل استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں، اُن سے حاصل ہونے والے معاشی فوائد پر بھی اُن کا حق بنتا ہے اور اِس سلسلے میں منصفانہ ضوابط طے کرنے کی بالکل ضرورت ہے کیونکہ یہ دونوں فریقوں کے مفاد میں ہے۔‘‘
کانفرنس کی صدارت کرنے والے ملک جاپان نے حیاتیاتی تنوع کے بچاؤ کی مَد میں رواں سال سے لے کر اگلے تین برسوں تک کے لئے ترقی پذیر ملکوں کو دو ارب ڈالر کی پیشکش کی ہے لیکن آیا یورپی ممالک بھی کوئی ایسی پیشکش کریں گے، یہ ابھی واضح نہیں ہے۔ یورپی کمیشن کے ماحولیاتی شعبے کے سربراہ کارل فالکن برگ نے ناگویا میں ایک پریس کانفرنس کو بتایا کہ وہ کوئی مالی پیشکش کرنے کی سوچ کے ساتھ اِس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے اور یہ کہ ویسے بھی یورپ نے گزشتہ آٹھ برسوں کے دوزران حیاتیاتی تنوع کے بچاؤ کے لئے سالانہ ایک ارب یورو خرچ کئےہیں۔ رہ گئی بات امریکہ کی تو اُس نے تو حیاتیاتی تنوع کے کنونشن پر دستخط ہی نہیں کر رکھے اور اِس کانفرس میں محض مبصر کے طور پر شرکت کر رہا ہے۔
کانفرنس کے موقع پر 170 سے زیادہ سائنسدانوں کی طرف سے ایک جائزہ بھی جاری کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ دُنیا کے ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے بیس فیصد جانور بقا کے خطرے سے دوچار ہیں۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: کشور مصطفیٰ