جاپانی شہنشاہ آکی ہیٹو تیس سال تک تخت پر براجمان رہنے کے بعد اپنی ذمے داریوں سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ وہ گزشتہ دو صدیوں کے دوران تخت سے دستبردار ہونے والے پہلے شہنشاہ ہیں۔ جاپان کے نئے شہنشاہ ان کے بیٹے ناروہیٹو ہوں گے۔
شہنشاہ آکی ہیٹو روایتی لباس پہنے ہوئے ’کاشی کودو کورو‘ کی شِنٹو عبادت گاہ جاتے ہوئےتصویر: Reuters/Japan Pool
اشتہار
اس وقت 85 سالہ آکی ہیٹو تین عشرے قبل ’چڑھتے ہوئے سورج کی سرزمین‘ جاپان میں تخت پر بیٹھے تھے۔ ان کی شہنشاہ کے طور پر تخت سے دستبرداری کی شاہی تقریبات آج منگل 30 اپریل کو شروع ہوئیں، جو دو دن جاری رہیں گی۔ آج دن کے آغاز پر یہ تقریبات آکی ہیٹو کی طرف سے شِنٹو عقیدے کے مطابق سورج کی دیوی کی ایک عبادت گاہ میں دعائیہ تقریب کے ساتھ شروع ہوئیں۔
کل بدھ یکم مئی کو ان تقریبات کے اختتام پر شہنشاہ آکی ہیٹو کی تخت سے دستبرداری کا عمل بھی مکمل ہو جائے گا، جس کی تکمیل صدیوں پرانی روایات پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے کی جاتی ہے۔ جاپانی شاہی خاندان میں آنے والی اس بہت بڑی تبدیلی کا ایک انتہائی اہم پہلو یہ ہے کہ آکی ہیٹو جاپان میں گزشتہ دو سو سال میں تخت سے دستبردار ہونے والے پہلے شہنشاہ ہیں۔ مشرق بعید کی اس بادشاہت میں صدیوں پرانی روایت یہ ہے کہ کوئی بھی شہنشاہ جب ایک بار تخت سنبھال لے، تو وہ عمر بھر یہ ذمے داریاں انجام دیتا رہتا ہے۔
شہنشاہ آکی ہیٹو اور ملکہ میچی کو سیر کرتے ہوئےتصویر: Reuters/Imperial Household Agency of Japan
دیوتاؤں کو اطلاع دینے کی مذہبی تقریب
منگل تیس اپریل کی صبح جب شہنشاہ آکی ہیٹو روایتی جاپانی لباس پہنے ہوئے ’کاشی کودو کورو‘ کی شِنٹو عبادت گاہ گئے، تو اس کا مقصد وہاں عبادت کرتے ہوئے دیوتاؤں کو ان کی تخت سے دستبرداری کی اطلاع دینا تھا۔ یہ شِنٹو عبادت گاہ ’آماتےراسُو‘ نامی شِنٹو دیوی کے نام پر قائم کی گئی تھی، جنہیں جاپان میں شاہی خاندان کے ’براہ راست اجداد‘ میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ یہی مذہبی تقریب تخت سے دستبرداری کی دو روز تک جاری رہنے والی تقریبات کا وہ واحد حصہ تھی، جسے ملکی عوام کے لیے میڈیا پر براہ راست نشر بھی کیا گیا۔
تخت سے دستبرداری کے روایتی تقاضے
آج منگل کے روز پہلے شہنشاہ آکی ہیٹو شاہی محل میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کریں گے، جس میں اعلیٰ ترین حکومتی نمائندوں کے علاوہ شاہی خاندان کے مرد ارکان بھی حصہ لیں گے۔ شاہی قانونی روایات کے مطابق آکی ہیٹو آج رات مقامی وقت کے مطابق بارہ بجے تک شہنشاہ رہیں گے۔ پھر اس کے بعد بدھ کو ان کے بیٹے اور ولی عہد ناروہیٹو نئے شہنشاہ کے طور پر تخت پر بیٹھیں گے۔
دائیں سے بائیں: ملکہ میچی کو، شہنشاہ آکی ہیٹو، ولی عہد ناروہیٹو اور مستقبل کی ملکہ ماساکو اوواڈاتصویر: Reuters/Japan Pool
اس کے بعد ایک اور علیحدہ شاہی تقریب بھی منعقد ہو گی، جس میں نئے شہنشاہ کے طور پر ناروہیٹو کو شاہی تلوار، ہیرے جواہرات، شاہی خاندان کی مہر اور جملہ شاہی اختیارات منتقل کر دیے جائیں گے۔ جاپان میں یہ تقریب شاہی وراثت کی منتقلی کی تقریب کہلاتی ہے۔
آکی ہیٹو کی شخصیت اور دور حکمرانی
جاپان دنیا کی قدیم ترین بادشاہت ہے، جہاں آکی ہیٹو سے پہلے ان کے والد ہیروہیٹو شہنشاہ تھے۔ ہیروہیٹو دوسری عالمی جنگ کے دوران بھی جاپانی تخت کے مالک تھے اور ان کا جاپانی عوام ایک دیوتا جیسا احترام کرتے تھے۔ اس لیے کہ جاپان میں بادشاہ کو انتہائی مقدس سمجھا جاتا ہے۔
آکی ہیٹو اپنے والد ہیروہیٹو کے انتقال کے بعد 1989ء میں تخت پر بیٹھے تھے اور 2016ء میں انہوں نے یہ اعلان کر کے ہر کسی کو حیران کر دیا تھا کہ وہ تخت سے دستبردار ہونا چاہتے تھے۔ انہیں ماضی میں سرطان کا مرض بھی لاحق رہا ہے اور ان کے دل کا آپریشن بھی ہو چکا ہے۔
موجودہ اور مستقبل کا شاہی جوڑا، آمنے سامنےتصویر: picture-alliance/dpa
جاپانی شاہی خاندان میں آکی ہیٹو کی شخصیت کی خاص بات یہ رہی ہے کہ انہوں نے اس گھرانے کے کردار کو جدید بنانے کی کوشش کی۔ وہ ایسے پہلے شہنشاہ تھے، جنہوں نے ایک عام جاپانی خاتون سے شادی کی تھی۔ یہی خاتون بعد میں ’ملکہ میچی کو‘ بنیں۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جاپانی عوام کے ساتھ اپنے رابطوں اور شاہی منصب پر فائز ہونے کے باوجود عام شہریوں کے لیے اپنی جذباتی قربت کا کئی بار مظاہرہ کیا، جسے بہت سراہا گیا تھا۔
آکی ہیٹو انیس سو نواسی میں تخت پر براجمان ہوئے تھےتصویر: picture-alliance/dpa/E. Hoshiko
اس انتہائی انسان دوست شاہی رویے کی بڑی مثالیں 2011ء میں آنے والے زلزلے اور سونامی طوفان اور اس سے قبل 1995ء میں کوبے شہر میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے موقع پر بھی دیکھی گئی تھیں۔
اس کے علاوہ آکی ہیٹو نے جاپانی ریاست کی اس مشکل دور میں بھی سربراہی کی، جب 1970ء اور 1980ء کے عشروں میں شاندار اقتصادی کارکردگی کے بعد مشرق بعید کا یہ ملک اقتصادی جمود کا شکار ہو گیا تھا اور قومی قرضے زیادہ ہوتے جا رہے تھے۔
ولی عہد ناروہیٹو کون ہیں؟
آئندہ شہنشاہ ناروہیٹو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی اپنے والد کی طرح جاپانی شاہی خاندان کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا عمل جاری رکھیں گے۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں اور انہوں نے آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ ماساکو اوواڈا سے شادی کر رکھی ہے۔
جاپان میں سومو کشتی کے ننھے ستارے
جاپان میں سومو پہلوانوں کو اسٹار سمجھا جاتا ہے۔ تاہم شہرت کی بلندیوں تک پہنچنے کے لیے بہت چھوٹی عمر سے محنت کرنی پڑتی ہے۔ قومی چیمپئین شپ کے مقابلوں تک صرف بہترین پہلوان ہی پہنچتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
طاقتور پہلوانوں کے لیے زیادہ مواقع
زیادہ تر جاپانی اب بھلے ہی بیس بال اور فٹ بال دیکھنے لگے ہوں لیکن جاپان کا قومی کھیل اب بھی روایتی سومو کُشتی ہی ہے۔ بچے بھی اس میں دلچسپی لیتے ہیں۔ سومو فائٹر بننے کے لیے ٹریننگ چھ سال کی عمر سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ ان کی خوراک بھی بہت بڑھ جاتی ہے۔ بہترین پہلوان بچوں کا مقابلہ ٹوکیو میں ہوتا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
بہترین بمقابلہ بہترین
جاپان میں پرائمری اسکولوں کے قریب چالیس ہزار بچے سوموکشتی کے ابتدائی مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں۔ مقابلوں کے کئی ادوار کے بعد 40،000 میں سے صرف چار سو بچے ہی ٹوکیو کے بڑے مقابلے کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
استحکام کے ساتھ لچک بھی
پیر جمائے رکھنا، یہی سومو کشتی کا اصل گُر ہے۔ سومو فائٹر بننے کے لیے پاؤں مضبوط ہونا بےحد ضروری ہے۔ لیکن جیت کا دوسرا اہم گُر جسم میں لچک ہونا بھی ہے۔ پیر جمائے رکھنا، یہی سومو کشتی کا اصل گُر ہے۔ سومو فائٹر بننے کے لیے پاؤں مضبوط ہونا بےحد ضروری ہے۔ لیکن جیت کا دوسرا اہم گُر جسم میں لچک ہونا بھی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
فرش پر دونوں ٹانگیں مضبوطی سے
سومو کشتی میں بیاسی داؤ ہوتے ہیں۔ کیا داؤ کھیلنے کی اجازت ہے اور کسی کی نہیں، یہ بالکل واضح نہیں۔ آسان الفاظ میں یہ کہ آپ کو رِنگ میں رہنا ہے اور صرف پاؤں کے تلوے زمین چھو سکتے ہیں۔ جو ان قوانین کی خلاف ورزی کرے گا وہ مقابلے سے نکل جائے گا۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
لنگوٹ کی اہمیت
سومو کشتی میں فتح اور شکست بہت حد تک چھ میٹر طویل بھاری بھرکم لنگوٹ کے باندھے جانے کی تکنیک پر بھی منحصر ہے۔ اسے جسم کے ساتھ کَس کر باندھنا بہت ضروری ہے تا کہ مد مقابل اسے چھو یا پکڑ نہ پائے۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
یکطرفہ مقابلے
اسکول میں ہونے والے مقابلے وزن کے مطابق نہیں ہوتے بلکہ وہاں عمر دیکھی جاتی ہے۔ ایسے میں اکثر دبلے پتلے بچے بھاری بھرکم پہلوان کے مقابلے میں آ جاتے ہیں اور یوں یہ کشتی یکطرفہ سی لگتی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
جاسوس ریت
سومو کشتی کے اکھاڑے کو دوھیو کہا جاتا ہے۔ گول گھیرے والے اکھاڑے کا قطر ساڑھے چار میٹر ہوتا ہے۔ ریت کی جسم پر چپکنے سے بھی جیوری کے ارکان کو پتہ چلتا ہے کہ کون ہارا۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
بیمار کرنے والا کھیل
بچپن سے ہی سومو کشتی سیکھنے والے بچے جلد موٹاپے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بارہ سے چودہ سال کی عمر تک آتے آتے بیشتر کا وزن 100 کلو گرام تک پہنچ جاتا ہے۔ وزن بڑھنے سے جوڑوں کا درد، ذیابیطس اور دل کے مسائل بھی سامنے آنے لگتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
مقابلے کا فیصلہ سیکنڈوں میں
سومو کشتی کے مقابلوں میں ہار یا جیت کا فیصلہ اکثر جلد ہی ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ تو یہ فیصلہ ہونے میں چند سیکنڈ سے زیادہ نہیں لگتے۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
اکھاڑے کے ننھے ستارے
جیت کے بعد منتخب ہونے والے بچوں کو انٹرویو دینے کی اجازت ہوتی ہے۔ اسکولوں کے مقابلے جیتنے کے بعد یہ بچے بڑے ٹورنامنٹ کے لیے ٹوکیو پہنچے ہیں۔ ان کے درمیان جو بھی فاتح نکلے گا وہی مستقبل کا سومو اسٹار بنے گا۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
10 تصاویر1 | 10
ناروہیٹو کی عمر اس وقت 59 برس ہے اور وہ ماضی میں ملکی شاہی زندگی کے چند پہلوؤں پر تنقید کرنے سے بھی نہیں گھبرائے تھے۔ ناروہیٹو کی ماساکو اوواڈاسے شادی 1993ء میں ہوئی تھی اور اس سے قبل وہ ایک کامیاب سفارت کار تھیں۔ ماساکو اوواڈا پر جاپانی عوام کی توقعات کے حوالے سے ایک بڑا دباؤ یہ بھی تھا کہ وہ ایک بیٹے کو جنم دے کر ملک کو مستقبل کے لیے تخت کا ایک نیا وارث مہیا کریں، مگر ایسا ہو نہیں سکا تھا۔
تخت نشینی کے حقدار صرف مرد
ولی عہد ناروہیٹو اور شہزادی اوواڈا کی صرف ایک ہی اولاد ہے اور وہ شہزادی آئیکو ہیں، جو 2001ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ لیکن شہزادی آئیکو مستقبل میں تخت پر ملکہ کے طور پر براجمان نہیں ہو سکیں گی، کیونکہ جاپان میں تخت کا وارث صرف کوئی بادشاہ ہی ہوتا ہے۔
ناروہیٹو کے تخت نشین ہونے کے بعد ان کے ممکنہ جانشین ان کے بھائی شہزادہ آکی شینو ہی ہو سکتے ہیں۔ لیکن آکی شینو کا اپنا بھی صرف ایک ہی بیٹا ہے، جس کی عمر اس وقت صرف 12 برس ہے۔ اس طرح ناروہیٹو کے بادشاہ بننے کے بعد دنیا کی اس قدیم ترین بادشاہت کے لیے آکی شینو اور ان کے اس وقت کم عمر بیٹے کے علاوہ ملکی تخت کا کوئی مرد وارث موجود ہی نہیں ہے۔
ناگاساکی پر ایٹمی حملے کو 76 برس ہو گئے
1945ء میں دو جاپانی شہروں پر امریکی حملے ابھی تک کسی بھی جنگ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا واحد واقعہ ہیں۔ چھ اگست کو ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے تین دن بعد امریکا نے ناگاساکی پر بھی ایٹم بم گرایا تھا۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
پہلا حملہ
چھ اگست 1945ء کو امریکی جہاز Enola Gay نے ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا تھا۔ اس بم کو’لٹل بوائے‘ کا بے ضرر سا نام دیا گیا تھا۔ اُس وقت اس شہر کی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی اور حملے کے فوری بعد ستر ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ چند دنوں کے دوران مرنے والوں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
حملے میں تاخیر
منصوبے کے مطابق ہیروشیما پر یکم اگست 1945ء کو حملہ کیا جانا تھا تاہم خراب موسم کی وجہ سے امریکیوں کو اسے ملتوی کرنا پڑا۔ پانچ روز بعد بمبار جہاز ’انولا گے‘ تیرہ رکنی عملے کے ساتھ اپنا مشن پورا کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ اس ٹیم کو راستے میں معلوم ہوا کہ وہ ایٹم بم گرانے جا رہی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
دوسرا جوہری حملہ
ہیروشیما پر حملے کے تین روز بعد امریکیوں نے ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا۔ منصوبے کے مطابق دوسرا ایٹم بم کیوٹو پر گرایا جانا تھا۔ امریکی وزارت دفاع کی مخالفت کے بعد یہ ہدف تبدیل کر دیا گیا۔ ’فیٹ مین‘ نامی یہ بم 22 ٹن وزنی تھا۔ اس جوہری بم نے بھی قریب ستر ہزار افراد کی جان لی تھی۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
ہدف کا اسٹریٹیجک انتخاب
1945ء میں ناگاساکی میں اسلحہ ساز کمپنی مٹسوبیشی کی مرکزی دفتر قائم تھا۔ وہاں بحری اڈہ بھی موجود تھا۔ اس شہر میں وہ تارپیڈو بھی تیار کیے گئے تھے، جوجاپان نے پرل ہاربر پر حملے کے لیے استعمال کیے تھے۔ ناگاساکی میں بہت کم ہی جاپانی فوجی تعینات تھے۔ تاہم خراب موسم کی وجہ سے شپ یارڈ کو نشانہ نہ بنایا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہلاکتیں بڑھتی ہی چلی گئیں
حملوں کے بعد بھی کئی ماہ تک تابکاری اثرات ہزاروں افراد کی موت کا باعث بنتے رہے۔ صرف ہیروشیما میں 1945ء کے اختتام تک ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد میں ساٹھ ہزار کا اضافہ ہو چکا تھا۔ ہلاکتوں میں اضافہ تابکاری، بری طرح جھلس جانے اور دیگر زخموں کی وجہ سے ہوا۔ بعد ازاں لگائے گئے اندازوں کے مطابق دوہرے جوہری حملوں میں مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ تیس ہزار تک رہی تھی۔
تصویر: Keystone/Getty Images
خوف کے سائے میں جنگ کا اختتام
ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملوں کے بعد بھی متعدد جاپانی شہریوں کو خدشہ تھا کہ تیسرا ایٹمی بم ٹوکیو پر گرایا جائے گا۔ جاپان نے ہتیھار پھینکنے کا اعلان کیا اور اس طرح ایشیا میں دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جوہری حملوں کے احکامات دیے تھے۔ کئی مؤرخین ان حملوں کو جنگی جرائم قرار دیتے ہیں۔
تصویر: AP
تعمیر نو
ہیروشیما کے تباہ شدہ شہر کو مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔ صرف دریائے اوٹا پر واقع ایک جزیرے پر امن پارک پہلے ہی طرح قائم ہے۔ یہاں پر ایک یادگاری شمع بھی روشن کی گئی ہے۔ یہ شمع اس وقت بجھائی جائے گی، جب دنیا سے آخری ایٹم بم کا خاتمہ ہو جائے گا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
یادگاروں کی تعمیر کی جاپانی روایت
ناگاساکی میں 1955ء سے جوہری بم حملوں کے حوالے سے ایک عجائب گھر اور ان حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں ایک امن پارک قائم ہے۔ جاپان میں 1945ء کے ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی یاد کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں ہیروشیما اور ناگاساکی کو ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images
یادگاری تقریبات
اگست 1945ء کے ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں دنیا بھر میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ ہیروشیما میں منقعد ہونے والی سالانہ تقریب میں حملوں میں بچ جانے والے، ہلاک ہونے والوں کے لواحقین، شہری اور سیاستدان شرکت کرتے ہیں اور اس دوران ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
تصویر: Kazuhiro Nogi/AFP/Getty Images
جوہری ہتھیاروں کے خلاف آواز
پیروشیما میں امن یادگاری پارک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے کہا کہ جاپان دنیا بھر سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے آواز اٹھاتا رہے گا۔