ماضی کی نسبت جاپانی نوجوانوں میں ڈیٹنگ کے رجحان میں واضح کمی ہوئی ہے۔ حکومت کے لیے یہ اعداد و شمار پریشان کن ہیں کیوں کہ ملک میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور بچوں کی پیدائش میں کمی ہوئی ہے۔
اشتہار
انیس سالہ ایزائی ایساوا یونیورسٹی کے طالب علم ہیں اور وہ ڈیٹنگ کےبارے میں کہتے ہیں کہ یہ ’آرام سے زیادہ مصیبت والا کام‘ ہے۔ ایزائی ایساوا ٹوکیو کی ایک بہترین یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ آسانی سے اپنے لیے ایک گرل فرینڈ ڈھونڈ لیں لیکن وہ ایسا کرنا ہی نہیں چاہتے۔
ایزائی ایساوا کے مطابق انہیں اپنے دوستوں سے گپ شپ لگانے، فارغ اوقات میں ملازمت کرنے اور سیاحت سے زیادہ خوشی حاصل ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’میں پہلے وہ چیزیں کرنا چاہتا ہوں، جو میں نے طے کر رکھی ہیں۔ میری یونیورسٹی کے بہت سے لڑکے لڑکیاں اسی طرح کے ہی خیالات رکھتے ہیں۔‘‘
جاپانی ایسوسی ایشن فار سیکس ایجوکیشن کے ملک بھر میں کروائے جانے والے ایک حالیہ سروے کے مطابق یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے 28 فیصد سے زائد لڑکے اور 30 فیصد سے زائد لڑکیاں آج تک کسی ڈیٹ پر نہیں گئے۔ سن دو ہزار پانچ میں یہ تعداد بالترتیب بیس اور اٹھارہ فیصد تھی۔
اس حالیہ جائزے میں تیرہ ہزار طالب علموں کو شامل کیا گیا تھا۔ ماہرین کے مطابق یہ صورتحال اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کیوں کہ ملک میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور بچوں کی پیدائش میں کمی۔
اس سروے میں شامل سینتالیس فیصد نوجوانوں کا کہنا تھا کہ وہ جنسی تعلق قائم کر چکے ہیں جبکہ سن دو ہزار پانچ کے سروے میں یہ تعداد تقریبا تریسٹھ فیصد تھی۔ جائزے کے مطابق جاپانی نوجوانوں کے رویوں میں تبدیلی کی ایک بڑی وجہ انٹرنیٹ بھی ہے۔ پہلے جاپانی نوجوان کلاسوں، کھیل کے میدانوں اور مختلف سماجی ایونٹس میں ملتے تھے جبکہ اب یہ ملاقاتیں اسمارٹ فونز اور انٹرنیٹ پر ہوتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق شرمیلے جاپانی نوجوانوں پر انٹرنیٹ پر موجود فحش فلموں کے اثرات پڑے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جاپانی نوجوان مخالف جنس سے بات کرنے سے بھی شرماتے ہیں اور ان کی جنسی ضروریات اب انٹرنیٹ پوری کر رہا ہے۔
ٹیمپل یونیورسٹی کے ٹوکیو کیمپس کے پروفیسر کیلے کلیولینڈ کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہ صرف نوجوان ہی نہیں ہیں، جن کی جنسی سرگرمیاں کم ہیں بلکہ ایسے سروے بھی ہیں، جن کے مطابق جاپانی شہری دیگر ممالک کے شہریوں کی نسبت کم جنسی تعلق قائم کرتے ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’جاپانی سوشل انٹرایکشن سے گھبراتے ہیں اور خود اعتمادی میں کمی کی وجہ سے بھی ڈیٹنگ مشکل ہو جاتی ہے۔‘‘
ا ا / ع ب
سنگ دل جاپانی بیوی سے سیلیکون کی گڑیا اچھی
جاپانی معاشرے میں تنہائی کے شکار مردوں کا کہنا ہے کہ جاپانی خواتین بہت کٹھور دل کی ہوتی ہیں۔ شاید اسی لیے اُنہوں نے سیلیکون کی بنی خوبصورت گڑیوں میں اپنے لیے دلچسپی کا سامان تلاش کر لیا ہے۔
تصویر: Getty Images/B.Mehri
سفر حسین ہے
جاپانی فزیوتھیراپسٹ ماسایوکی اوزاکی اپنی سیلیکون سے بنی محبوبہ کے ہمراہ کہیں جا رہے ہیں۔ سیلیکون ڈولز کا جسمانی سائز ایک نوجوان لڑکی جیسا ہے اور اُن کے جسمانی خطوط بھی دلفریب انداز میں تیار کیے گئے ہیں۔ ایسی مصنوعی ذہانت کی حامل سیلیکون ڈولز کی قیمت پانچ ہزار ڈالر سے پندرہ ہزار ڈالر تک بتائی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/B.Mehri
ساحل سمندر کی سیر اکیلے کیوں؟
ماسایوکی اپنی سیلیکون کی گڑیا کے ساتھ وقت اسی انداز میں گزارتے ہیں جیسے عام طور سے اپنے قریبی ساتھی کے ساتھ گزارا جاتا ہے۔ لمبی ڈرائیو پر جانا ہو یا ساحل سمندر کی سیر، اوزاکی کی محبوبہ اُن کے ساتھ ساتھ ہے۔
تصویر: Getty Images/B.Mehri
ہوٹل میں قیام
اوزاکی نے اپنی ساتھی ڈول کے ہمراہ ایک ہوٹل میں بھی قیام کیا۔ ہوٹل سے رخصت ہونے کے بعد وہ غالباﹰ کسی پارک میں سیر کرنے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/B.Mehri
مصنوعی خوبصورتی
جاپانی مرد حضرات ایک بیوی کے ہوتے ہوئے بھی ایسی سیلیکون گڑیوں کے مشتاق ہیں۔ سماجی ماہرین کے مطابق اس حوالے سے بھی سوچا جانا چاہیے کہ مصنوعی دانش سے آراستہ ایک عام جوان لڑکی جیسی سیلیکون ڈالز سے معاشرتی اقدار پر کیا اثر پڑے گا اور کیا یہ صرف ایک شوق اور بھیڑ چال کا رویہ ثابت ہو گا؟
تصویر: Getty Images/B.Mehri
سرد مہر جاپانی بیویاں
جاپانی مردوں کا کہنا ہے کہ اُن کی بیویاں بہت سرد مہر اور غیر رومانوی ہوتی ہیں۔ اسی لیے اوزاکی نے بیوی کی موجودگی میں سیلیکون سے بنی گڑیا رکھنا پسند کیا۔ اس تصویر میں اوزاکی اپنی ڈول کو پارک کی سیر کرا رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/B.Mehri
مایو اچھی ہے
اوزاکی کہتے ہیں کہ اُن کی مایو دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہے۔ جب وہ شام کو گھر آتے ہیں تو وہ پوری توجہ سے اُن کی ہر بات سنتی ہے۔
تصویر: Getty Images/B.Mehri
زندگی کا رومان
ٹوکیو کے رہائشی اوزاکی نے اپنی رومانوی زندگی کی کمی کو پورا کرنے کے ایک منفرد راستہ چنا ہے۔ جب سے وہ سیلیکون سے بنی گڑیا گھر لے کر آئے ہیں اُن کی ’زندگی خوشگوار ‘ ہو گئی ہے۔
تصویر: Getty Images/B.Mehri
ایک ڈول چھ ہزار ڈالر کی
جاپان میں ہر سال دو ہزار کے قریب سیلیکون ڈولز فروخت ہوتی ہیں۔ ان کی قیمت قریب چھ ہزار ڈالر تک ہوتی ہے۔ ان گڑیوں کی انگلیوں اور سر میں ردو بدل ممکن ہے۔ اس تصویر میں ایسی گڑیاں بنانے کا ماہر ایک شخص سیلیکون ڈول کے سر پر کام کر رہا ہے۔