1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جاپانی کنوارے ، شرمیلے پن کے مارے

عدنان اسحاق8 جون 2015

جاپان میں کنوارے مردوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ جاپان میں معاشی صورتحال اور مردوں کا شرمیلا پن ان کے جنسی روابط کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔

تصویر: AP

41 سالہ تاکاشی ساکائی بالکل صحت مند ہے، اُس کے پاس ایک اچھی نوکری بھی ہے اور وہ خوبصورت مسکراہٹ کا مالک بھی ہے۔ ساکائی ہم جنس پرست بھی نہیں ہے لیکن کسی خاتون سے جنسی تعلق قائم کرنے کی اُس کی خواہش ابھی تک پوری نہیں ہو سکی ہے۔ تاکاشی ساکائی اِس کشتی کا واحد مسافر نہیں ہے بلکہ جاپان میں درمیانی عمر کے ایسے مردوں کی کمی نہیں ہے، جو ابھی تک کنوارے ہیں۔ ساکائی کے مطابق اُسے یہ اندازہ نہیں ہے کہ مخالف جنس کو کیسے راغب کیا جائے۔’’ میری کبھی کوئی گرل فرینڈ نہیں بنی۔ میں خواتین کو پسند کرتا ہوں لیکن ابھی تک صحیح راستہ نہیں مل پا رہا۔‘‘

2010ء میں آبادی اور سماجی تعلقات کے ایک ادارے کی جانب سے کرائے جانے والے ایک جائزے کے مطابق جاپان میں تیس سال کے لگ بھگ ایک تہائی مردوں کا کبھی کوئی جنسی رابطہ قائم نہیں ہو سکا۔ ایسے مردوں کو جاپان میں’’ یارامیسو‘‘ کہا جاتا ہے۔ جوڑوں کو ایک دوسرے سے ملانے میں مدد کرنے والے ’میچ میکر‘ یوکو اتاموتو کہتے ہیں کہ جاپان میں معیشی شعبے میں ہونے والی تگ و دو نے سب سے زیادہ اثرات مردوں پر مرتب کیے ہیں۔ اب اِنہیں محفوظ اور بہتر نوکری کی تلاش میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔’’ اقتصادی صورتحال کمزور ہونے کی وجہ سے بہت سے مردوں میں خود اعتماد ی کی کمی پیدا ہو گئی ہے‘‘۔ اتاموتر مزید کہتے ہیں کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران جاپان میں مردوں کے لیے حالات بہت زیادہ سخت ہو گئے ہیں۔ ایک 49 سالہ ماہر تعمیرات نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر کہا کہ زندگی میں اس تناؤ نے خواتین کے ساتھ جسمانی اور جذباتی تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے مردوں کو نا اہل بنا دیا ہے۔

تصویر: imago stock&people

دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں جاپانی مرد سیکس بھی کم کرتے ہیں۔ 2010ء کے ایک جائزے میں شامل اٹھارہ اور انیس سال کے 68 فیصد لڑکوں نے کہا کہ انہوں نے سیکس نہیں کیا اور وہ کنوارے ہیں۔ جرمنی میں اس عمر کے کنوارے لڑکوں کی شرح بیس فیصد کے لگ بھگ ہے جبکہ قدامت پسند سمجھے جانے والے ملک ترکی میں اس عمر کے کنوارے لڑکوں کی شرح 37 فیصد ہے۔ وائٹ ہینڈز نامی ایک فلاحی ادارے کے شنگو ساکاتسومے کہتے ہیں کہ جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں جہاں سڑکوں، ٹیلی وژن اور کومکس بُکس تک میں جنسی تصاویر دکھائی دیتی ہیں، سکیس کے حوالے سے یہ رویہ کسی معمے سے کم نہیں۔’’ موجودہ جاپان میں سیکس یا جنسی روابط کے حوالے سے تعلیم کہیں سے بھی حاصل نہیں کی جا سکتی اور نہ کہیں جا کر رومانوی تعقلات کے بارے میں سیکھا جا سکتا ہے‘‘۔

41 سالہ تاکاشی ساکائی امید کا دامن تھامے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’ آخر کار کنوارہ پن اتنا خطرناک بھی نہیں ہے‘‘۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں