جاپان اور بھارت کے مابین سول جوہری معاہدہ طے پا گیا
11 نومبر 2016آج جمعے کے روز جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے اور ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی نے دونوں ملکوں کے مابین تجارت میں اضافے اور سکیورٹی کے معاملات میں بھی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ سن دو ہزار گیارہ میں فوجو شیما حادثے کے بعد سے جاپانی ایٹمی صنعت بیرونی منڈیوں کی تلاش میں ہے کیوں کہ جاپان میں اس صنعت سے وابستہ کاروبار میں کمی واقع ہوئی ہے۔
جاپان کے ساتھ ہونے والے آج کے معاہدے کے تحت بھارت اس ٹیکنالوجی کو صرف پرامن تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا پابند ہے لیکن اس کے باوجود یہ متنازعہ ہے کیوں کہ نئی دہلی حکومت نے ابھی تک جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں۔
جاپان میں ایسے خدشات بھی پائے جاتے ہیں کہ بعد ازاں بھارت اس جاپانی ٹیکنالوجی کو اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
دونوں رہنماؤں نے آج اس بات پر زور دیا ہے کہ بھارت اسے پرامن مقاصد اور توانائی کے حصول کے لیے ہی استعمال کرے گا جبکہ جاپانی عہدیداروں کے مطابق بھارت نے اگر کوئی ایٹمی تجربہ کیا تو یہ معاہدہ منسوخ کر دیا جائے گا۔
بھارت اپنی مضبوط اقتصادی ترقی کے لیے جوہری بجلی کی پیداوار کو بڑھانا چاہتا ہے۔ نئی دہلی حکومت اسی طرز کے معاہدے فرانس، روس، برطانیہ اور امریکا کے ساتھ کر چکی ہے۔
جاپانی وزیر اعظم کا دورہ بھارت، تجارتی حجم بڑھانے پر اتفاق
تجزیہ کاروں کے مطابق شینزو آبے کی حکومت جوہری توانائی کو برآمد کرنے کی کوششوں میں ہے کیوں جاپان میں اس کے استعمال میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ جاپانی حکومت اسی طرز کے معاہدوں کے لیے ویتنام اور ترکی کے ساتھ مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے۔
ویتنام ابھی تک جاپانی جوہری توانائی خریدنے کا امیدوار رہا ہے لیکن رواں ہفتے ویتنام نے دو جوہری بجلی گھر بنانے کے منصوبے کو فی الحال ترک کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ عالمی منڈیوں میں توانائی کی قیمتیں تیزی سے کم ہو رہی ہیں اور ان کے ملک میں بجلی کی ڈیمانڈ میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
جاپان بھارت کے ریلوے کے نظام میں بھی حصہ دار بننا چاہتا ہے لیکن اس حوالے سے مذاکرات فی الحال جاری ہیں۔