جاپان اور جنوبی کوریا: ’’کمفرٹ ویمن کا تنازعہ ختم‘‘
28 دسمبر 2015جنوبی کوریا اور جاپان کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے۔ جنوبی کوریا کے وزیر خارجہ ینگ بیونگ نے اپنے جاپانی ہم منصب فومیو کیشیڈا سے ملاقات کے بعد کہا ’’یہ معاہدہ حتمی اور نا قابل تنسیخ ہے‘‘۔ فومیو کیشیڈا نے اس موقع پر کہا کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران ’’ کمفرٹ ویمن‘‘ بنائی جانے والی جنوبی کوریائی خواتین کو ایک ارب ین( 8.3 ملین ڈالر) ادا کیے جائیں گے۔ اس سے قبل 1993ء میں ٹوکیو حکومت ان واقعات کی مذمت میں ایک بیان بھی جاری کر چکی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپانی فوجیوں نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں کوئی دو لاکھ خواتین کو جنسی غلام بنایا تھا اور ان میں زیادہ تر کا تعلق جنوبی کوریا سے تھا۔ ان خواتین کو’کمفرٹ ویمن‘ یا ’تسکین فراہم کرنے والی خواتین‘ کا نام سے پکارا جاتا تھا۔ اس دور میں چین، انڈونیشیا، فلپائن اور تائیوان کی خواتین کو بھی جنسی غلامی پر مجبور کیا گیا تھا۔
جاپانی وزیر خارجہ کیشیڈا نے مزید کہا ’’یہ تلافی نہیں ہے۔ یہ جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین کی تکریم اور عزت نفس بحال کرنے کا ایک منصوبہ ہے تاکہ جذباتی طور پر پہنچنے والے زخموں کا ازالہ کیا جا سکے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کو جنسی غلام بنانے کے اس واقعے میں جاپانی فوج ملوث رہی ہے اور ٹوکیو حکومت اس سلسلے میں خود کو ذمہ دار محسوس کرتی ہے۔ ’’جاپانی وزیراعظم شینزو آبے دل کی گہرائیوں سے معافی کے طلب گار ہیں اور نادم بھی ہیں۔‘‘
اس دور میں کمفرٹ ویمن بنائی جانے والی 46 جنوبی کوریائی خواتین ابھی حیات ہیں اور یہ قومی سطح پر ایک انتہائی جذباتی موضوع بھی ہے۔ پیر اٹھائیس دسمبر کو طے پانے والے اس معاہدے کے تحت سیئول میں جاپانی سفارت خانے کے سامنے ان خواتین کی یاد میں تعمیر کیے جانے والے مجسمے کو بھی کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ جاپان اس مجسمے کو پریشان کن اور آنکھوں میں چبھن کے مساوی قرار دیتا ہے۔
فومیو کیشیڈا کے بقول یہ معاہدہ جاپان اور جنوبی کوریا کے باہمی تعلقات میں بہتری کے حوالے سے ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔ ’’یہ اتفاق رائے خطے میں امن اور استحکام کا بھی باعث بننے گا۔‘‘ کوریا 1910ء سے 1945ء تک جاپان کے زیر انتظام تھا۔