جاپان: اوساکا ميں زلزلہ، کئی فيکٹريوں ميں کام معطل
18 جون 2018
جاپان کے دوسرے سب سے بڑے اور صنعتی لحاظ سے اہم شہر اوساکا ميں پير کی صبح آنے والے زلزلے کے نتيجے ميں تين افراد ہلاک ہو گئے جبکہ متعدد فيکٹريوں ميں کام بند ہو گيا اور سڑکوں پر پانی کی پائپس پھٹ گئيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/STR
اشتہار
جاپان ميں پير کی صبح آنے والے زلزلے کی شدت ريکٹر اسکيل پر 6.1 تھی۔ يہ زلزلہ صبح کے وقت مقامی وقت کے مطابق تقریبا صبح آٹھ بجے آيا۔ اس کے بعد فی الحال سونامی کا کوئی انتباہ جاری نہيں کيا گيا ہے۔ وزير اعظم شينزو آبے نے بيان ديا ہے کہ اس وقت ريسکيو حکام نقصان کا جائزہ لے رہے ہيں اور اس وقت اولين ترجيح يہی ہے کہ لوگوں کی حفاظت کو يقينی بنايا جائے۔ زلزلے کے نتيجے ميں جاپان کے تين شہری ہلاک اور 234 کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
اس تازہ زلزلے کا مرکز اوساکا شہر کے شمال ميں قريب تيرہ کلوميٹر زير زمين تھا۔ زلزلے نے سب سے زيادہ تباہی جاپان کے وسط ميں اوساکا شہر کے اس حصے ميں مچائی، جہاں کئی فيکٹرياں واقع ہيں۔ عالمی شہرت يافتہ اليکٹرانک کمپنی پيناسونک کی جانب سے اعلان کيا گيا ہے کہ اس کے تين پلانٹس پر کام روکا جا رہا ہے۔ ٹويوٹا موٹر کارپوريشن کا ايک يونٹ ڈائی ہاٹسو موٹر نے بھی اوساکا اور کیوٹو ميں اپنی فيکٹريوں ميں کام نقصان کا جائزہ لينے کے ليے روک ديا ہے۔ علاوہ ازيں ٹريکٹر بنانے والی کمپنی کوبوٹا اور ايئر کنڈيشنر بنانے والی کمپنی ڈيکن نے بھی دو دو پلانٹس پر کام رکوا ديا ہے۔
جاپان کے پبلک براڈکاسٹر NHK کے مطابق ديواريں گرنے کے سبب ايک اسی سالہ شخص اور ايک نو سالہ بچی ہلاک ہو گئے جبکہ ايک اور اسی سالہ شخص گرتے ہوئے سامان کے نيچے دب کر ہلاک ہو گيا۔ ٹيلی وژن پر نشر کردہ مناظر ميں پانی کی لائنيں پھٹتے ہوئے بھی ديکھا جا سکتا ہے۔ دو ملين آبادی والے شہر اوساکا ميں نقصان ضرور ہوا ہے، جس کے حجم کا اندازہ عنقريب ہو جائے گا، تاہم اس کا پيمانہ اتنا وسيع نہيں ہے۔
قدرتی آفات میں لاکھوں اموات، بچا کیسے جائے؟
چار سال پہلے ایک بڑی قدرتی آفت کا شکار ہونے والے جاپان میں اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں پیشگی حفاظتی تدابیر پر بات کی جا رہی ہے کیونکہ مؤثر انتباہی نظاموں کے باوجود اکثر یہ انتباہ بہت تاخیر سے متاثرین تک پہنچ پاتا ہے۔
تصویر: S. Berehulak/Getty Images
پاکستان میں آنے والا شدید سیلاب
29 جولائی 2010ء کو دریائے سوات میں آنے والے سیلاب نے بہت سے مکانات تباہ کر دیے یا پھر پانی کی منہ زور لہریں اُنہیں بہا کر اپنے ساتھ لے گئیں۔ شمالی پاکستان کے اس خطّے کے لیے یہ بہت بڑی تباہی تھی کیونکہ اس خطے میں پہلے ہی زلزلوں کا بھی ڈر رہتا ہے۔ سیلاب سے بچاؤ یا پہلے سے خبردار کرنے والے نظام عنقا ہیں۔ پیشگی انتباہی نظام امدادی تنظیمیں نصب کر رہی ہیں جبکہ سرکاری امداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
تصویر: S. Berehulak/Getty Images
فلپائن میں ہائیون نامی طوفان کی تباہ کاریاں
نومبر 2013ء میں 380 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار کی حامل ہواؤں کے ساتھ ہائیون نامی طوفان فلپائن کو روندتا ہوا گزرا۔ اس ملک میں آنے والے طاقتور ترین طوفانوں میں شمار ہونے والے ہائیون کی زَد میں آ کر چھ ہزار سے زیادہ انسان مارے گئے۔ فلپائن کے شہریوں نے اس طوفان سے سبق سیکھتے ہوئے اب پُر خطر علاقوں میں مضبوط مکانات بنانے شروع کیے ہیں اور بر وقت انخلاء بھی اب ممکن ہو سکے گا۔
تصویر: DW/R.I. Duerr
تباہ کاری کے نتائج عشروں پر پھیلے ہوئے
مارچ 2011ء میں جاپان میں آنے والے شدید زلزلے اور اُس کے بعد سمندر میں اُٹھنے والی سونامی لہروں کی زَد میں آ کر پندرہ ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے۔ ساحل پر بنے فوکوشیما کے ایٹمی بجلی گھر کی تباہی سے وسیع تر علاقے تابکاری کی زَد میں آ گئے۔ ایٹمی توانائی ترک کرنے کی بجائے حفاظتی انتظامات بہتر بنانے کا فیصلہ ہوا۔ فعال ایٹمی ری ایکٹر گنجان آباد علاقوں میں ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
دنیا کا خطرناک ترین خطّہ
فروری 2010ء میں ایک طاقتور زلزلے نے چلی کے ساحلوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس زلزلے کے بعد حکام نے پیرو تک کے ساحلی علاقوں میں بسنے والے لوگوں کو سونامی لہروں سے خبردار کیا لیکن تمام تر حفاظتی انتظامات کے باوجود آٹھ سو انسان موت کے منہ میں چلے گئے۔ چلی میں خاص طور پر زلزلوں کا ڈر رہتا ہے۔ دنیا بھر میں نوّے فیصد زلزلے اِسی خطّے میں آتے ہیں۔
تصویر: Reuters
خطرات کم ہوتے نظر نہیں آتے
بحیرہٴ کیریبین میں واقع ملک ہیٹی میں 2010ء میں ریکٹر اسکیل پر سات کی طاقت کے ایک شدید زلزلے نے دو لاکھ بیس ہزار انسانوں کو موت کی نیند سُلا دیا تھا۔ تب ہیٹی کے ایک ملین شہری بے گھر ہو گئے تھے۔ ہیٹی کے حکام آج بھی اس قابل نہیں ہیں کہ کسی قدرتی آفت کی صورت میں تمام متاثرین کو پیشگی خبردار کر سکیں۔ جنگلات کی کٹائی اور شدید بارشوں کے نتیجے میں اس ملک میں ہر وقت زمینی تودے گرنے کا خطرہ رہتا ہے۔
تصویر: A.Shelley/Getty Images
انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں قدرتی آفات؟
بارہ مئی 2008ء کو جنوبی چینی صوبے سیچوان میں ایک شدید زلزلے کے باعث 80 ہزار انسان مارے گئے، جن میں وہ ہزاروں بچے بھی شامل تھے، جو زلزلے کے وقت اپنی کلاسوں میں تھے۔ زلزلے کا مرکز ایک بڑے شہر کے قریب کئی کلومیٹر کی گہرائی میں تھا۔ بعد میں بھی وہاں مسلسل زلزلے آتے رہے۔ ماہرین کا اندازہ ہےکہ ان زلزلوں کی وجہ وہ بے پناہ دباؤ ہے، جو قریبی زی پنگ پُو ڈیم میں تیز رفتاری کے ساتھ پانی بھرنے سے پیدا ہوتا ہے۔
تصویر: China Photos/Getty Images
میانمار میں ’نرگس‘ کے نتیجے میں سیلاب
2008ء میں مئی کی ایک قیامت خیز رات میں ’نرگس‘ نامی طوفان نے میانمار کے ساحلی علاقوں میں تباہی مچا دی۔ سیلاب کی بلند لہروں سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ایک لاکھ چالیس ہزار انسان لقمہٴ اجل بن گئے۔ چونکہ فوجی حکومت نے بین الاقوامی امداد متاثرین تک پہنچنے نہیں دی تھی، اس لیے قدرتی آفت کے بعد بھی لوگ عرصے تک مصائب کا شکار رہے۔
تصویر: Hla Hla Htay/AFP/Getty Images
زلزلے نے کشمیر کو ہلا کر رکھ دیا
اکتوبر 2005ء میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مظفر آباد کے قریب ایک زلزلے نے 30 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقے کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ اس کے اثرات بھارت میں بھی محسوس کیے گئے۔ گنجان آباد علاقوں میں 84 ہزار انسان موت کا شکار ہو گئے۔ زلزلے کے دو مزید طاقتور جھٹکوں اور طوفانی بارشوں نے متاثرین کو اَشیائے ضرورت کی فراہمی مشکل بنا دی۔ اس کے بعد امدادی تنظیموں نے پیشگی انتباہی نظام نصب کیے۔
تصویر: AFP/Getty Images/F. J. Brown
قیمتی گھنٹے ضائع کر دیے گئے
26 دسمبر 2004ء کو بحر ہند میں 9.1 قوت کے ایک زلزلے نے بلند سونامی لہروں کو جنم دیا، جنہیں انڈونیشیا، سری لنکا، بھارت اور تھائی لینڈ کے ساحلوں سے ٹکرانا تھا۔ امریکی محققین آٹھ منٹ بعد ہی جان گئے تھے کہ بڑی تباہی آنے والی ہے لیکن کئی گھنٹے بعد دو لاکھ تیس ہزار بے خبر انسان موت کے منہ میں چلے گئے۔ 2005ء میں پیشگی انتباہی نظام پر کام شروع ہو گیا لیکن بچاؤ کے انتظامات ابھی بھی ناکافی تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں صدی کا گرم ترین موسم گرما
2003ء میں یورپ کا موسم گرما غیر معمولی طور پر گرم تھا۔ اگست میں درجہٴ حرارت 47.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا گیا، جو کہ اس براعظم کے لیے ایک ریکارڈ تھا۔ ستّر ہزار ہلاکتیں ہوئیں، بہت سے جنگلات میں آگ لگ گئی، دریا خشک ہو گئے اور کھیت ویران ہو گئے۔ موسمیاتی ماہرین کے خیال میں زمینی درجہٴ حرارت بڑھنے کی وجہ سے خشک سالی، طوفانی ہواؤں اور مسلسل بارشوں جیسے انتہائی موسم آگے چل کر ایک معمول بن سکتے ہیں۔