ہفتہ گیارہ مارچ کو جاپان بھر میں فوکوشیما جوہری پاور پلانٹ کی تباہی کی یاد میں سوگوار تقریبات کا انعقاد ہو رہا ہے۔ 2011ء میں آنے والے زلزلے اور سونامی سے یہ پاور پلانٹ شدید متاثر ہوا تھا۔
اشتہار
اس سال جاپان میں فوکوشیماکی تباہی کا سبب بننے والے مہلک سونامی کا سوگ جاپانی قوم ایک ایسے وقت میں منا رہی ہے جب یوکرین کی جنگ کے سبب دنیا بھر میں توانائی کا بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں جوہری توانائی پر انحصار کے لیے خود جاپان میں عوامی حمایت بڑھ رہی ہے۔
سوگوار تقاریب کا انعقاد
جاپان میں مقامی وقت کے مطابق دو بج کر چھیالیس منٹ اور بین الاقوامی وقت کے مطابق پانچ بج کر چھیالیس منٹ پر فوکوشیما سانحے کے سوگ میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ 2011ء میں عین اسی وقت ریکٹر اسکیل پر نو کی شدت کے زلزلے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سونامی لہروں نے شمال مشرقی جاپان کو تباہ کر دیا تھا۔ ریکارڈ شدہ تاریخ کا میں اس واقعے کو چوتھا طاقتور ترین زلزلہ قرار دیا جاتا ہے۔
آج ہفتہ 11 مارچ کو ٹی وی فوٹیج میں سونامی میں اپنے پیاروں کو کھو دینے والے لوگوں کو پھول چڑھاتے، دعائیں مانگتے اور تعظیم سے جھکتے ہوئے دیکھا گیا۔ جاپان کا ایک شدید متاثر ہونے والا شہر کیسینوما پورے کا پورا زمین بوس ہو گیا تھا اور اس ناگہانی آفت کے بعد وہاں سے قریب ایک لاکھ 65 ہزار شہری اپنا گھر بار چھوڑ کر نکل گئے تھے۔ بعد ازاں اس علاقے کے جوہری پلانٹس کے آس پاس کے علاقوں کو تابکاری کے اثرات سے پاک کرنے اور رہائشی علاقوں کو محفوظ قرار دیا گیا تھا تاہم اس علاقے کے بہت سے رہائشیوں نے واپس نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔
توانائی کا شدید ترین بحران
جاپان کو کئی دہائیوں میں توانائی کے شدید ترین بحران کا سامنا ہے، حکومت اپنی جوہری صنعت کی بحالی کو تیز کرنا چاہتی ہے۔ وزیر اعظم فومیو کیشیدا نے جاپان کے نیوکلیئر سیفٹی واچ ڈاگ کی طرف سے منظور شدہ سات ری ایکٹرز کو دوبارہ کام شروع کرنے اور قوم سے نئے حفاظتی میکینزم کے ساتھ ''اگلی نسل کے‘‘ ری ایکٹرز کی تعمیر پر غور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جاپان کے مشہور اخبارات کے حالیہ رائے عامہ کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت 2011ء کے بعد پہلی بار ری ایکٹرز کو دوبارہ شروع کرنے کی حمایت کر رہی ہے۔
وزیر اعظم کیشیدا نے فوکوشیمامیموریل سروس میں اپنے ایک خطاب میں کہا، ''حکومت فوکوشیما ڈائیچی پلانٹ کو محفوظ اور مستقل طور پر ختم کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھے گی اور یہ بحالی کے لیے ایک اہم عمل ہے۔‘‘
جاپانی وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا، ''یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم تباہی سے بچنے والے ملک کی تعمیر کے لیے کوششوں کو فروغ دیں۔‘‘
جوہری توانائی کے خلاف مہم چلانے والوں کے حلقے میں تاہم اس بارے میں بداعتمادی اب بھی گہری ہے۔ اس کے علاوہ فوکوشیما پلانٹ کے آپریٹر ٹیپکو پر حفاظتی کوتاہیوں کا الزام ہے جس نے مقامی آبادی کو بھی پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے۔
اس سال جنوری میں، ٹوکیو کی ہائی کورٹ نے TEPCO کے تین سابق ایگزیکٹیوز کی بریت کو برقرار رکھا، اور انہیں ناگہانی آفت کے حوالے سے پیشہ ورانہ لاپرواہی کے الزام سے مبرا قرار دیا۔
تاہم گزشتہ سال ایک الگ سول فیصلے میں، تینوں مذکورہ افراد کے علاوہ ایک اور سابق اہلکار فوکوشیما حادثے کو روکنے میں ناکامی پر مجموعی طور پر 13.3 ٹریلین ین یا 97 بلین امریکی ڈالر کا جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بھاری معاوضے کی رقم جاپانی دیوانی مقدمے کے لیے اب تک کی سب سے بڑی رقم ہے، حالانکہ وکلاء تسلیم کرتے ہیں کہ یہ مدعا علیہان کی ادا کرنے کی صلاحیت سے باہر ہے۔
ٹوکیو حکومت اس سال تباہ شدہ فوکوشیما پلانٹ سے 10 لاکھ ٹن سے زائد 'ٹریٹڈ واٹر‘ یا آلودگی سے پاک کرنے کے عمل سے گزارے گئے پانی کو سمندر میں چھوڑنے کا منصوبہ بھی رکھتی ہے۔
فوکوشمیا:چھ سال بعد بھی تابکاری
گیارہ مارچ 2011ء کے فوکوشیما جوہری حادثے کی وجہ سے بہت سے انسانوں کو تباہ کن نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان میں جاپانی شہری اور جوہری صنعت سے منسلک کچھ افراد شامل ہیں۔ کیا اب بھی اس پُر خطر ٹیکنالوجی کا کوئی مستقبل ہے؟
تصویر: UN Photo/IAEA/Greg Webb
فوکوشیما : جوہری بم سے زیادہ تابکاری
مارچ 2011ء: زلزلے اور سونامی کے بعد فوکوشیما کے جوہری مرکز میں حادثے کے باعث خارج ہونے والی تابکاری کی مقدار ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم سے پانچ سو گنا زیادہ تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Abc Tv
بھاری لاگت ، بے پناہ تابکاری
اس آفت سے بہت بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ جاپانی حکومت کے مطابق اس حادثے کی وجہ سے 21.5 ارب ین ( 177 ارب یورو ) کے اخراجات آئے جب کہ انسانوں کی تکلیف اور دیگر ممالک تک پہنچنے والی تابکاری کے نقصانات اس سے علیحدہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بحرالکاہل ابھی تک آلودہ
زلزلے اور سونامی کی وجہ سے فوکوشیما جوہری مرکز کے کولنگ نظام کو بہت شدید نقصان پہنچا تھا جس کے بعد سے مختلف ری ایکٹروں سے تابکاری کا اخراج شروع ہوا۔ اس دوران جوہری مرکز کے نیچے موجود پانی بھی آلودہ ہو گیا۔ اس میں پانی کی کچھ مقدار کو تو پمپوں کے ذریعے نکال لیا گیا تاہم اس آلودہ پانی کا کچھ حصہ بحرالکاہل میں بہہ گیا۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
تھائی رائیڈ یا غدود کے سرطان میں اضافہ
جاپان کی ایک طرح سے خوش قسمتی تھی کہ فوکوشیما حادثے کے فوری بعد چلنے والی تیز ہوائیں تابکاری کو سمندر کی جانب لے گئیں۔ اس کی وجہ سے ٹوکیو کے ارد گرد رہنے والے پچاس ملین شہری اس آفت سے محفوظ رہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق تاہم اس واقعے کے بعد تھائی رائیڈ کے سرطان میں مبتلا ہونے والے بچوں کی تعداد بیس گنا بڑھ گئی ہے۔
تصویر: Reuters
اکثریت جوہری ٹیکنالوجی کے خلاف
اس حادثے کے قبل جاپان میں 54 جوہری ری ایکٹرز کام کر رہے تھے اور آج فعال ری ایکٹرز کی تعداد صرف دو ہے۔ تاہم حکومت جوہری توانائی کے استعمال کے اپنے ارادوں پر قائم ہے اور چند ری ایکٹرز کو دوبارہ سے استعمال میں لانے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ ٹوکیو حکام کے ان منصوبوں کی راہ میں متاثرہ علاقوں کے شہری ابھی تک کامیابی کے ساتھ رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
تصویر: REUTERS
جوہری صنعت بھی بحران کا شکار
فوکوشیما سانحے کے بعد جوہری صنعت کو شدید نقصان پہنچا، جو مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ جاپان، امریکا اور فرانس میں جوہری کمپنیاں خسارے کا شکار ہیں۔ نئی جوہری پلانٹس خریدے نہیں جا رہے اور تعمیر کے نئے منصوبے بھی پس و پیش کا شکار ہیں۔
تصویر: Reuters
جوہری پلانٹس ’مفت‘
ایک وقت تھا جب جوہری مراکز کی تعمیر ایک منافع بخش کاروبار تھا۔ اس دوران زیادہ تر مراکز پرانے ہو چکے ہیں، ان کی حالت مخدوش ہے، انہیں فوری طور پر مرمت کی ضرورت ہے اور یہ خسارے کا بھی شکار ہیں۔ اس صورتحال میں سوئٹزرلینڈ کا جوہری ادارہ ’آلپگ‘ اپنے تینتس اور اڑتیس سالہ دو پرانے مراکز توانائی کی ایک فرانسیسی کمپنی کو تحفتاً دینے کی پیش کش کی۔ تاہم فرانسیسی کمپنی نے یہ پیش کش مسترد کر دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Seeger
جوہری حادثوں سے خوف
یورپی یونین اور سوئٹزرلینڈ میں آج کل 132جوہری مراکز کام کر رہے ہیں۔ ایک جوہری مرکز تیس سے پینتیس سال تک کارآمد رہ سکتا ہے۔ اب یہ جوہری مراکز اوسطاً بتیس سال کے ہو چکے ہیں۔ اس دوران ان میں خرابیوں، مرمت اور چھوٹے موٹے حادثوں کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ تاہم اس دوران عوام کی ایک بڑی تعداد کسی بڑے حادثے سے قبل ان جوہری مراکز کو بند کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
تصویر: DW/G. Rueter
چین کا جوہری توانائی پر انحصار
یورپی یونین، جاپان اور روس جہاں نئے جوہری مراکز تعمیر نہیں کر رہے وہیں چین جوہری توانائی پر اپنا انحصار بڑھا رہا ہے۔ چین کوئلے سے توانائی کے حصول کو ترک کرتے ہوئے جوہری توانائی استعمال کرنے کے اپنے منصوبوں پر قائم ہے۔ تاہم اس دوران بیجنگ حکومت نے قابل تجدید ذرائع سے توانائی کے حصول کے مختلف منصوبوں میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔