جاپان کے لوگ کسی بھی ایسے معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں جو ان کے لیے شرم یا ناکامی کا باعث ہو۔ ایسے ہزاروں افراد جن کے لیے مسائل حد سے تجاوز کر جائیں وہ روپوش ہو جاتے ہیں اور گمنامی کی زندگی جینا پسند کرتے ہیں۔
اشتہار
24 سالہ کیموکی میاموٹو 2002 مارچ کی ایک صبح معمول کے مطابق کام پر نکلے۔ لیکن آفس جانے کے بجائے ان کی منزل ٹوکیو کا ساحلِ سمندر تھا۔ ٹوکیو کے ساحل سے ہر رات ایک بحری جہاز روانا ہوتا ہے جو ملک کے مختلف ساحلی علاقوں کے درمیان آمد و رفت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کیمیوکی اس جہاز پر سوار ہوتے ہیں اور اس کے بعد ان کا کبھی کوئی سراغ نہیں ملتا۔ ان کے بھائی کو دو دن بعد کشتی کے عملے کی جانب سے ایک فون کال موصول ہوتی ہے جس میں انہیں آگاہ کیا جاتا ہے کے کیموکی کا سامان جہاز میں موجود ہے لیکن ان کا کوئی نشان باقی نہیں۔ کیموکی کا خاندان آج تک یہ بات نہیں جان پایا کہ وہ کہاں گئے۔
ہر سال جاپان میں ہزاروں لوگ اپنی مرضی سے روپوش ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ مردہ یا زندہ مل جاتے ہیں لیکن کئی ایسے بھی ہیں جو برسوں سے لاپتا ہیں۔ جاپان میں اس عمل کو 'جوہاتسو‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کا مطلب ہے، وہ لوگ جو دانستہ غائب ہوجاتے ہیں اور کسی اور علاقے میں اپنی پہچان بدل کر نئے سرے سے زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں ان روپوش ہوجانے والے لوگوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی ہے۔
لاکھوں جاپانی شہری، تنہا زندگی کیوں گزار رہے ہیں؟
04:02
جاپانی اپنی ناکامیوں کی وجہ سے رضاکارانہ طور پر گمشدہ ہونا چاہتے ہیں
جاپان میں گمشدہ ہو جانے کا یہ عمل کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 1967 میں بننے والی ''دی ایویپوریشن آف مین‘‘ نامی ایک دستاویزی فلم میں اسی موضوع کو فلمایا گیا تھا۔ 1970 تک جاپان میں اس روایت نے زور پکڑ لیا۔ لوگ اس طریقے کو اپنا کر اپنی ناکام شادیوں سے چھٹکارا پانے لگے کیونکہ جاپان میں روایتی طلاق ایک مشکل مرحلہ تھا۔ ملکی اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 100,000 جاپانی مرد اور خواتین سالانہ غائب ہو جاتے ہیں۔ وہ خود اپنی گمشدگیوں کے منصوبہ ساز ہوتے ہیں۔
ان خود ساختہ گمشدگیوں کے پیچھے کئی محرکات ہوتے ہیں جیسے کہ طلاق، قرض، بے روزگاری، امتحان میں ناکام ہونا اور کئی ایسی چیزیں جو ان کے لیے کسی بھی طور پر شرم کا باعث ہوں۔ جاپانی معاشرہ عام طور پر شرم کی ثقافت پر مبنی ہے۔ غیر معقول توقعات پر شرمندہ ہونا، خاندان، آجروں اور یہاں تک کہ ملک سے متعلق کوئی بھی ناکامی یا شرمندگی جاپانیوں کے لیے موت سے بھی بدتر ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ خودکشی کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور اکثر لوگ غائب ہو جاتے ہیں۔
سنگ دل جاپانی بیوی سے سیلیکون کی گڑیا اچھی
جاپانی معاشرے میں تنہائی کے شکار مردوں کا کہنا ہے کہ جاپانی خواتین بہت کٹھور دل کی ہوتی ہیں۔ شاید اسی لیے اُنہوں نے سیلیکون کی بنی خوبصورت گڑیوں میں اپنے لیے دلچسپی کا سامان تلاش کر لیا ہے۔
تصویر: Getty Images/B.Mehri
سفر حسین ہے
جاپانی فزیوتھیراپسٹ ماسایوکی اوزاکی اپنی سیلیکون سے بنی محبوبہ کے ہمراہ کہیں جا رہے ہیں۔ سیلیکون ڈولز کا جسمانی سائز ایک نوجوان لڑکی جیسا ہے اور اُن کے جسمانی خطوط بھی دلفریب انداز میں تیار کیے گئے ہیں۔ ایسی مصنوعی ذہانت کی حامل سیلیکون ڈولز کی قیمت پانچ ہزار ڈالر سے پندرہ ہزار ڈالر تک بتائی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/B.Mehri
ساحل سمندر کی سیر اکیلے کیوں؟
ماسایوکی اپنی سیلیکون کی گڑیا کے ساتھ وقت اسی انداز میں گزارتے ہیں جیسے عام طور سے اپنے قریبی ساتھی کے ساتھ گزارا جاتا ہے۔ لمبی ڈرائیو پر جانا ہو یا ساحل سمندر کی سیر، اوزاکی کی محبوبہ اُن کے ساتھ ساتھ ہے۔
تصویر: Getty Images/B.Mehri
ہوٹل میں قیام
اوزاکی نے اپنی ساتھی ڈول کے ہمراہ ایک ہوٹل میں بھی قیام کیا۔ ہوٹل سے رخصت ہونے کے بعد وہ غالباﹰ کسی پارک میں سیر کرنے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/B.Mehri
مصنوعی خوبصورتی
جاپانی مرد حضرات ایک بیوی کے ہوتے ہوئے بھی ایسی سیلیکون گڑیوں کے مشتاق ہیں۔ سماجی ماہرین کے مطابق اس حوالے سے بھی سوچا جانا چاہیے کہ مصنوعی دانش سے آراستہ ایک عام جوان لڑکی جیسی سیلیکون ڈالز سے معاشرتی اقدار پر کیا اثر پڑے گا اور کیا یہ صرف ایک شوق اور بھیڑ چال کا رویہ ثابت ہو گا؟
تصویر: Getty Images/B.Mehri
سرد مہر جاپانی بیویاں
جاپانی مردوں کا کہنا ہے کہ اُن کی بیویاں بہت سرد مہر اور غیر رومانوی ہوتی ہیں۔ اسی لیے اوزاکی نے بیوی کی موجودگی میں سیلیکون سے بنی گڑیا رکھنا پسند کیا۔ اس تصویر میں اوزاکی اپنی ڈول کو پارک کی سیر کرا رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/B.Mehri
مایو اچھی ہے
اوزاکی کہتے ہیں کہ اُن کی مایو دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہے۔ جب وہ شام کو گھر آتے ہیں تو وہ پوری توجہ سے اُن کی ہر بات سنتی ہے۔
تصویر: Getty Images/B.Mehri
زندگی کا رومان
ٹوکیو کے رہائشی اوزاکی نے اپنی رومانوی زندگی کی کمی کو پورا کرنے کے ایک منفرد راستہ چنا ہے۔ جب سے وہ سیلیکون سے بنی گڑیا گھر لے کر آئے ہیں اُن کی ’زندگی خوشگوار ‘ ہو گئی ہے۔
تصویر: Getty Images/B.Mehri
ایک ڈول چھ ہزار ڈالر کی
جاپان میں ہر سال دو ہزار کے قریب سیلیکون ڈولز فروخت ہوتی ہیں۔ ان کی قیمت قریب چھ ہزار ڈالر تک ہوتی ہے۔ ان گڑیوں کی انگلیوں اور سر میں ردو بدل ممکن ہے۔ اس تصویر میں ایسی گڑیاں بنانے کا ماہر ایک شخص سیلیکون ڈول کے سر پر کام کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/B.Mehri
8 تصاویر1 | 8
جاپان میں بڑھتی 'ایویپوریشن ‘ کمپنیز
اس گمشدگی کے بڑھتے رجحان کو دیکھتے ہوئے اب جاپان میں باقاعدہ ایسے ادارے کھل گئے ہیں جو لوگوں کو روپوش ہو کر نئی زندگیاں شروع کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔ ان اداروں کو 'ایویپوریشن کمپنیز‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد، جب قومی بے شرمی جیسی اصطلاحات اپنے عروج پر تھیں اوراس کے بعد 1989 اور 2008 کے مالیاتی بحرانوں کے نتیجے میں بھی جاپان میں لوگوں نے معاشرے میں 'تحلیل ہوجانے‘ کے اپنے عمل کو تیز کر دیا۔ مسلسل ناکامیاں اور گرتی ہوئی معیشت کی وجہ سے قرض تلے دبے ان لوگوں کے لیے یہ ایک راہِ فرار تھی جو کبھی نہیں ملنا چاہتے تھے اور اپنی گمشدگیوں کو اغوا کی طرح دکھانا چاہتے تھے۔
دانستہ گم افراد کے منتظر خاندان والے اور ملک کا سخت قانون
ذاتی ڈیٹا کے تحفظ کے شعبے میں جاپان کے سخت قوانین کی وجہ سے یہ تقریباً ناممکن ہے کہ ان خود ساختہ گمشدہ لوگوں کا قانونی طور پر سراغ لگایا جا سکے۔ پولیس ان تک تبھی پہنچ سکتی ہے جب کوئی مقدمہ (جیسے قتل کا مقدمہ) درج کیا جاتا ہے۔ جب کوئی شخص غائب ہوجاتا ہے تو یہ کریمنل کیس نہیں بلکہ ایک سول کیس ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ''لاپتا افراد‘‘ کے رشتہ داروں کے پاس اپنے پیاروں کو تلاش کرنے کے لیے کوئی مناسب طریقہ کار نہیں ہوتا ہے۔ وہ پولیس سے لاپتہ افراد کا سراغ لگانے کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے یا بلنگ ڈیٹا استعمال کرنے کے لیے نہیں کہہ سکتے۔
’گھوسٹ شپس،‘ کہانیاں اور حقیقت
اسی ہفتے ایک لاوارث بحری جہاز آئرلینڈ کے ساحلوں پر پہنچا۔ لیجنڈ بحری جہاز ’فلائنگ ڈچ مین‘ سے لے کر جاپانی ساحلوں پر لاپتہ ہونے والی شمالی کوریائی کشتیوں تک، گھوسٹ شپس کا داستانوں اور حقیقت دونوں میں ہی ذکر ملتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Dietmar Hasenpusch
ایم وی آلٹا
ایم وی آلٹا نامی یہ بحری جہاز اسی ہفتے آئرلینڈ کے ساحلوں پر پہنچا۔ یہ جہاز سن 2018 میں خراب ہو گیا تھا اور اس کے عملے نے اسے سمندر میں لاوارث چھوڑ دیا تھا۔ یہ لاوارث بحری جہاز ایک سال سے بھی زائد عرصے تک بحر اوقیانوس میں ہزارہا میل کا سفر کرتا ہوا آخر آئرلینڈ کے ایک ساحل تک پہنچا۔
تصویر: AFP/Irish Coast Guard
فلائنگ ڈچ مین
کیپٹن ہینڈرک فان ڈیر ڈیکن کا ذکر افسانوں میں ملتا ہے اور انہیں ڈچ مین کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے1641ء میں ایمسٹرڈم سے ایسٹ انڈیز کا سفر شروع کیا تھا اور اس کے بعد وہ کبھی واپس نہیں لوٹے تھے۔ کہانی کے مطابق ان کا جہاز ہمیشہ کے لیے اپنا سفر جاری رکھنے کے لیے ڈوب گیا تھا۔ فلائنگ ڈچ مین کو توہم پرست جہاز راں مستقبل کی مشکلات کی ایک علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Photo12/Fine Art Photographs
شمالی کوریا کی کشتیاں
جاپان نے حالیہ برسوں میں اپنے ساحلوں سے لاوارث جہازوں اور کشتیوں کو ہٹانے کا کام شروع کیا۔ ان میں سے زیادہ تر بحری جہاز شمالی کوریا سے آئے تھے۔ ان میں سے کچھ میں تو عملے کے افراد زندہ حالت میں بھی ملے جبکہ زیادہ تر لاشیں موجود تھیں۔ کچھ پر شبہ تھا کہ وہ شاید شمالی کوریا سے فرار ہو کر جاپانی پانیوں میں پہنچے تھے۔ دیگر کے بارے میں سوچا گیا کہ شاید وہ مچھیرے تھے، جو سمندر میں بہت آگے تک نکل گئے تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/H. Asakawa
ریئون ان مارو
امریکی ساحلی محافظین نے جاپانی لاوارث جہاز ’ریئون ان مارو‘ کو اپریل 2012ء میں الاسکا کے ساحلوں کے قریب تباہ کر دیا تھا۔ یہ جہاز 2011ء میں جاپان میں آنے والے زلزلے اور سونامی کے بعد لہروں کی نذر ہو گیا تھا۔ یہ جہاز ایک سال تک بحرالکاہل میں بھٹکتا رہا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U.S. Coast Guard
سمندر میں لاپتہ
نینا نامی بادبانی کشتی کی لمبائی پندرہ میٹر کے لگ بھگ تھی۔ یہ کشتی 2013ء میں نیوزی لینڈ سے آسٹریلیا کے سفر کے دوران بحر تسمان میں اچانک غائب ہو گئی تھی۔ اس پر کشتی کے مالک ڈیوڈ ڈائچ، ان کی اہلیہ، ان کا ایک بیٹا اور عملے کے چار ارکان سوار تھے۔ یہ ڈیوڈ کی والدہ کیرل ڈائچ ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کی بادبانی کشتی کی ایک تصویر کے ساتھ بیٹھی ہیں۔
تصویر: Imago Images/Zuma Press
سیم رتولنگی پی بی سولہ سو
انڈونیشیا کا جہاز ’سیم رتولنگی سولہ سو‘ اگست 2018ء میں پرسرار طور پر میانمار کے شہر ینگون کے ساحلی علاقے سے ملا تھا۔ میانمار کی نیوی کے مطابق 177 میٹر طویل اس مال بردار جہاز کو کسی کشتی کی مدد سے بنگلہ دیش میں کسی شپ بریکنگ یارڈ تک پہنچایا جا رہا تھا کہ خراب موسم کی وجہ سے وہ تاریں ٹوٹ گئیں، جن کی مدد سے اسے کھینچا جا رہا تھا۔ اس موقع پر تیرہ رکنی انڈونیشی عملے نے اسے لاوارث چھوڑ دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y.A. Thu
ایس وی لوبوو اورلووا
ایک سو میٹر لمبے اس جہاز لوبوو اورلووا کو سابق یوگوسلاویہ میں بنایا گیا تھا۔ اس کا نام سابق سوویت یونین کی ایک اداکارہ کے نام پر رکھا گیا۔ 2010ء میں اس جہاز کو شمالی امریکا کے جزیرے نیو فاؤنڈلینڈ سے کھینچ کر جزائر ڈومینیک کی جانب لایا جا رہا تھا۔ اسی دوران تاریں ٹوٹ گئی تھیں۔ اس کے بعد عملے نے اسے ایک دن کے لیے وہیں چھوڑ دیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ جہاز بین الاقوامی پانیوں میں ڈوب گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Dietmar Hasenpusch
7 تصاویر1 | 7
کیونکہ قانونﹰ ایک شخص کو مکمل حق حاصل ہے کہ وہ اپنی زندگی کو جیسے چاہے بسر کرے۔ تاہم گمشدہ افراد کے اہل خانہ ان کی واپسی کے ہمیشہ منتظر رہتے ہیں۔ جیسے کیموکی کے بھائی جن کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا، ''اسے گھر آنا چاہیے ہمارے والدین پہلے ہی بوڑھے ہو چکے ہیں، اور وہ خوش ہوں گے اگر وہ ایک سادہ فون کال کرے۔ صرف ایک بار اس کی آواز سنیں۔‘‘