1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جاپان میں برڈ فلو کے خلاف فوجی دستے بھی میدان میں

24 جنوری 2011

جاپانی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق ملکی وزارت دفاع نے پیر کو بہت سے مسلح فوجی دستے اس لیے جنوبی جزیرے کائی یوشو بھیج دیے کہ وہاں برڈ فلو کی روک تھام کی کوششوں میں مقامی حکام کی مدد کی جا سکے۔

کائی یوشو میں لاکھوں مرغیوں کی تلفی لازمی ہو گئیتصویر: AP

ایک سو ستر فوجیوں پر مشتمل یہ مسلح دستے جنوبی جاپان کے انتظامی علاقے میاذاکی کی انتظامیہ کی درخواست پر وہاں بھیجے گئے ہیں۔ یہ فوجی وہاں چار لاکھ سے زائد مرغیوں اور دیگر پرندوں کو تلف کرنے میں مقامی اہلکاروں کی مدد کرنے کے علاوہ دیگر حفاظتی اقدامات میں بھی ہاتھ بٹائیں گے۔

ایک کبوتر کو برڈ فلو سے بچاؤ کا ٹیکہ لگایا جا رہا ہےتصویر: AP

ٹوکیو میں جاپانی وزارت زراعت کے پارلیمانی سیکریٹری کینکو ماتسوکی نے صحافیوں کو بتایا کہ اس وقت کائی یوشو جزیرے پر سب سے اہم کام یہ ہے کہ فوری طور پر وہاں ان لاکھوں مرغیوں کی مکمل تلفی کو یقینی بنایا جائے، جو برڈ فلو کے وائرس کے تیز رفتار پھیلاؤ کی وجہ بن رہی ہیں۔

اس علاقے میں حکام کو ایک پولٹری فارم پر ہفتہ کے روز برڈ فلو کے وائرس کی موجودگی کا علم ہوا تھا اور چھ جانوروں میں اس وائرس کی موجودگی ثابت بھی ہو گئی تھی۔ پھر اتوار کے روز اسی علاقے میں ایک اور فارم پر موجود کئی مرغیوں کے اسی وبائی وائرس سے متاثر ہونے کی بھی تصدیق ہو گئی تھی۔

برڈ فلو کا وائرس بلیوں کے لیے بھی مہلک ثابت ہو سکتا ہےتصویر: dpa

کینکو ماتسوکی نے کہا کہ جاپان کے جنوبی جزیرے کائی یوشو پر کام کرنے والے یہ دونوں فارم ابھی حال ہی میں قائم کیے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات پر ناامیدی ہوئی ہے کہ جملہ حفاظتی اقدامات کے باوجود اس جزیرے پر ایسے فارموں میں بھی برڈ فلو کے وائرس کی موجودگی اب ایک مسلمہ حقیقت ہے۔

کائی یوشو جزیرے پر اب تک قریب 41 ہزار جانور تلف کیے جا چکے ہیں۔ جاپان میں میاذاکی کا انتظامی علاقہ 2007 ء میں اور پھر گزشتہ برس نومبر میں بھی برڈ فلو کے وائرس سے متاثر ہوا تھا۔ گزشتہ برس وہاں جانوروں کی منہ کھر کی بیماری بھی پھیل گئی تھی، جس کے بعد تقریباﹰ تین لاکھ مویشی تلف کرنا پڑ گئے تھے۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں