جاپان میں تیرہ ملین ڈالر کی نو سو لگژری گھڑیاں ’لاپتہ‘
7 مارچ 2024
جاپان میں تقریباﹰ نو سو ایسی لگژری گھڑیاں ’لاپتہ‘ ہو گئی ہیں، جن کی مالیت کا تخمینہ تیرہ ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق ان گھڑیوں کے لاپتہ ہو جانے کا انکشاف ایک آن لائن رینٹل پلیٹ فارم کی بندش کے بعد ہوا۔
اشتہار
جاپانی میڈیا کے مطابق ان گھڑیوں میں رولیکس، اومیگا اور ٹاگ ہوئر جیسے انتہائی بیش قیمت برانڈز شامل ہیں اور وہ ایک ایسے آن لائن پلیٹ فارم کے قبضے میں تھیں، جو انہیں مختلف گاہکوں کو کرائے پر دیتا تھا۔ جاپانی معیشت میں اشیاء اور سروسز کے اس طرح مشترکہ استعمال کو 'شیئرنگ اکانومی‘ کہا جاتا ہے۔
ان گھڑیوں کے 'لاپتہ‘ ہو جانے کا انکشاف متعلقہ آن لائن رینٹل پلیٹ فارم کی بندش کے بعد ہوا۔ ملکی میڈیا نے جمعرات سات مارچ کے روز بتایا کہ رینٹل ویب سائٹ کا مالک مبینہ طور پر فرار ہو کر دبئی جا چکا ہے۔
اشتہار
تقریباﹰ نو سو لگژری گھڑیوں کی مالیت تیرہ ملین یورو
جاپانی شہر اوساکا میں پولیس نے بتایا کہ یہ لگژری واچ رینٹل ویب سائٹ وسطی جاپان کے اسی شہر سے کام کر رہی تھی اور اس کا نام Toke Match تھا۔ جن بیش قیمت گھڑیوں کو اب تک برآمد نہیں کیا جا سکا، ان کی تعداد تقریباﹰ 900 اور مجموعی مالیت تقریباﹰ 13 ملین ڈالر (قریب 12 ملین یورو) بتائی گئی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس کی طرف سے چھان بین جاری ہے اور ان گھڑیوں کی ممکنہ برآمدگی کے سلسلے میں اسے ''وقت کے خلاف دوڑ‘‘ کا سامنا ہے۔
'ٹوکے میچ‘ نامی ویب سائٹ 'نیؤ ریزرو‘ نامی کمپنی کے زیر انتظام کام کرتی تھی اور اس پلیٹ فارم نے گھڑیاں کرائے پر دینے کی اپنی سروس 31 جنوری کو بند کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے ہاں رکھوائی گئی تمام لگژری گھڑیاں ان کے مالکان کو واپس کر دے گا۔
جاپانی پبلک براڈکاسٹر این ایچ کے نے بتایا کہ پولیس کو اس معاملے میں دھوکہ دہی کا علم تب ہوا، جب اوساکا، ملکی دارالحکومت ٹوکیو اور دیگر شہروں میں ایسی تقریباﹰ 190 گھڑیوں کے مالکان کی طرف سے 40 سے زائد درخواستوں میں شکایت کی گئی کہ 'ٹوکے واچ‘ نے اپنی رینٹل سروس تو بند کر دی ہے لیکن انہیں ان کی گھڑیاں کئی ہفتے گزر جانے کے باوجود واپس نہیں کی گئیں۔
گھڑیاں اور گھڑیال جمع کرنے کا شوقین پاکستانی
03:52
'لاپتہ‘ گھڑیون کی آن لائن فروخت
تفتیش کاروں کے مطابق ان سینکڑوں گھڑیوں میں سے بہت سی اب تک مجرمانہ طور پر آن لائن فروخت بھی کی جا چکی ہیں۔ اس امر کی انتہائی مہنگی گھڑیوں کی آن لائن تجارت کرنے والے چند اداروں نے بھی کر دی یے۔
ایسی ہی ایک آن لائن ری سیل ویب سائٹ Valuence نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس کی خدمات استعمال کرتے ہوئے اب تک ایسی کم از کم 20 گھڑیاں مختلف افراد کو بیچی جا چکی ہیں۔
اس ری سیل ویب سائٹ کو یہ بات اس وجہ سے پتہ چلی کہ اس کے ذریعے دوبارہ بیچی جانے والی کم از کم 20 لگژری گھڑیوں کے سیریل نمبر وہی تھے، جو 'ٹوکے واچ‘ رینٹل ویب سائٹ کو جمع کرائی گئی گھڑیوں کے تھے۔
انتہائی دلکش یورپی گھڑیال
کلائی کی گھڑیوں اور اسمارٹ فون کے دور میں عوامی مقامات پر نصب گھڑیالوں کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ یورپ میں کئی مقامات پر نصب بڑے گھڑیال اتار لیے گئے ہیں لیکن کئی گھڑیال اب بھی اپنی دلکشی کے ساتھ قائم و دائم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
لندن کا بگ بین
لندن کا بِگ بین یورپ کا انتہائی مشہور گھڑیال تصور کیا جاتا ہے۔ یہ جس مینار پر نصب ہے، اُس کا اصل نام ایلزبتھ ٹاور ہے لیکن اِس کی شہرت بگ بین ٹاور کے نام ہی سے ہے۔ اس کو لندن کی آواز یا ’وائس آف لندن‘ بھی کہا جاتا ہے۔ فی الحال مرمت کی وجہ سے بگ بین خاموش ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PA Wire/V. Jones
برلن کا ورلڈ ٹائم کلاک
جرمن دارالحکومت برلن کے الیگزانڈر پلاٹز پر نصب یہ گھڑیال انتہائی منفرد ہے۔ اس کو سن 1969 میں سابقہ مشرقی جرمنی کے صنعتی ڈیزائنر ایرش ژون نے ڈیزائن کیا تھا۔ ابتدا سے ہی یہ سیاحوں اور عام لوگوں کی ملاقات کا ایک مشہور مقام ہے۔ اس کے بلند مقام پر نظام شمسی اور نچلے حصے میں سلنڈروں کے ذریعے زمین کا نظام الاوقات دکھایا گیا ہے۔
یہ قدرے کم شہرت کا حامل گھڑیال ضرور ہے لیکن اپنی ساخت میں انتہائی دلچسپ ہے۔ یہ برلن کے یورپ سینٹر میں نصب ہے۔ تیرہ میٹر بلند یہ کرونو میٹر تقریباﹰ تین منزلوں کے مساوی ہے۔ اس کے شیشے کے بڑے بڑے پیمانوں میں سبز سیال مادہ گھنٹوں اور چھوٹے پیمانوں کا پانی منٹ کے لیے مختص ہے۔
تصویر: picture-alliance/Eibner-Pressefoto
پراگ کے ٹاؤن ہال کا گھڑیال
چیک جمہوریہ کے دارالحکومت پراگ کے ٹاؤن ہال پر نصب سن 1410 میں تعمیر ہونے والا فلکیاتی گھڑیال گاتھک طرز تعمیر کا نمونہ ہے۔ یہ دنیا بھر میں اپنی انفرادیت کی وجہ سے ایک مثال ہے۔ روایت ہے کہ اُس وقت کے حاکم نے اس گھڑیال کی تکمیل پر اِس کے بنانے والے کی آنکھیں نکال دی تھیں تا کہ وہ کوئی دوسرا ایسا گھڑیال نہ بنا سکے۔ یہ تزیئن نو کے عمل سے گزر رہا ہے اور اکتوبر سن 2018 میں یہ عمل مکمل ہو جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/chromorange/Bilderbox
زُائیٹلوگے گھڑیال، بیرن
گھڑی سازی کے دیس سوئٹزرلینڈ کے موجودہ دارالحکومت اور خوبصورت شہر بیرن میں سن 1530 میں زائیٹلوگے گھڑیال کی تعمیر مکمل کی گئی تھی۔ سیاح ہر گھنٹے پر گھڑیال کے ہندسوں کی جگہ بنی اشکال کا تماشہ دیکھ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/A. Filippov
اسٹراس برگ کا فلکیاتی گھڑیال
اسٹراس برگ کے کیتیھڈرل کے اندر نصب یہ گھڑیال سوئس گھڑی سازوں کی محنتِ شاقہ کا عکاس ہے۔ اس گھڑیال میں ہندسوں کی شکل میں انسانی زندگی کے ادوار کو دکھایا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images GmbH/G. Lenz
دنیا کا سب سے بڑا ’کُکو گھڑیال‘
جنوبی جرمنی میں واقع مشہور بلیک فارسٹ کے شہر ٹرائی بیرگ میں یہ گھڑیال قریبی جنگلات کا نشان خیال کیا جاتا ہے۔ اس کو دنیا کا سب سے بڑا ’کُکُو کلاک‘ قرار دیا گیا ہے اس گھڑیال کا وزن چھ ٹن ہے۔ ہر گھنٹے اور نصف گھنٹے پر لکڑی کا بنا ہوا ساڑھے چار میٹر کی جسامت کا کُکُو گھڑیال کی کھڑی سے نمودار ہو کر وقت کا اعلان کرتا ہے۔
تصویر: Stadtverwaltung Triberg
میونخ کا گھڑیال
یہ گھڑیال جرمن شہر میونخ کے سٹی ہال کی عمارت کے باہر نصب ہے۔ یہ گھڑیال جدید دور کی توانائی سولر انرجی سے چلتا ہے اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Warmuth
ویانا کا ’اینکر کلاک‘
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کا اینکر گھڑیال بہت مشہور ہے۔ یہ اینکر ہوف بلڈنگ اور ہوہے مارکٹ کے حصوں کو جوڑنے والے پل پر نصب ہے۔ اس کے ڈیزائنر فرانز ماٹش تھے۔ اس گھڑیال کے ہر گھنٹے پر مشہور شخصیات کے مجسمے نمودار ہوتے ہیں۔
آسٹریا کے شہر گراتز کی ایک وجہٴ شہرت یہ کلاک ٹاور بھی ہے۔ یہ گھڑیال شلوس برگ میں نصب ہے اور دور سے دکھائی دیتا ہے۔ ابتداء میں اس میں صرف ایک سوئی نصب کی گئی تھی اور منٹ کی سوئی بعد میں لگائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Votava
وینس کا فلکیاتی گھڑیال
اٹلی کے شہر وینس میں سینٹ مارکس اسکوائر میں یہ گھڑیال نصب ہے جو صرف وقت ہی نہیں دکھاتا بلکہ علم البروج کا بھی عکاس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ سورج اور چاند کی سمتوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ سن 1998 تک اس گھڑیال کا نگران اپنے خاندان کے ہمراہ اس ٹاور کے اندر ہی رہتا تھا۔ سن 2006 سے اس کی نگرانی ڈیجیٹل کر دی گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Engelhardt
بُلوآ کا ’جادو گھر‘
فرانسیسی شہر بلوآ کا یہ گھڑیال حقیقی معنوں میں گھڑیال نہیں ہے۔ اس کئی ڈریگنز کے سروں سے وقت کو ظاہر کیا گیا ہے۔ ہر نصف گھنٹے پر یہ ڈریگنز اپنے اپنے ہندسوں کے مقام سے باہر نکل کر خوفناک حرکات کا مظہر ہوتے ہیں۔ یہ کلاک بلوآ میں واقع جادو کے عجائب گھر کے ماتھے پر نصب ہے۔ جدید دور کے مشہور جادو گر رابرٹ ہودن اسی شہر میں پیدا ہوئے تھے۔
جاپانی پولیس 'ٹوکے میچ‘ کے مبینہ طور پر فرار ہو چکے مالک کی تلاش میں ہے۔ ملکی نیوز ایجنسی جیجی پریس نے بتایا کہ ٹوکیو میں پولیس نے 'ٹوکے میچ‘ کے تاکازومی کومیناتو نامی مالک کے خلاف کئی ملین ڈالر کی مجرمانہ دھوکہ دہی کے شبے میں وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے ہیں۔
جیجی پریس نے مزید لکھا ہے کہ کومیناتو کی عمر 42 برس ہے اور اس نے جنوری میں اپنی ویب سائٹ کے لیے جمع کرائی گئی ایک رولیکس گھڑی ایک سیکنڈ ہینڈ ڈیلر کو مبینہ طور پر ساڑھے چھ لاکھ ین (تقریباﹰ 4,400 ڈالر) کے عوض بیچی تھی۔ مزید یہ کہ فروری کے اواخر میں یہ جاپانی شہری ملک سے فرار ہو کر دبئی چلا گیا تھا۔
م م / ش ر (میتھیو فورڈ)
یورپ کے خوبصورت ترین گھڑیال
اتوار کو علی الصبح یورپ بھر میں گھڑیاں ایک گھنٹہ پیچھے کر دی گئیں۔ موسم سرما میں ایسا ہر سال کیا جاتا ہے۔ بات وقت کی ہو رہی ہے تو جانیے اس پکچر گیلری میں یورپ کے قدیم اور خوبصورت ترین گھڑیالوں کے بارے میں!
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Lenz
لندن میں بگ بین
یورپ کا سب سے مشہور کلاک ٹاور لندن میں ایستادہ ہے۔ اسے بگ بین ٹاور کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن اصل میں اس کا نام الزبتھ ٹاور ہے۔ یہاں ’وائس آف برطانیہ دھن‘ ہر گھنٹے بجتی ہے۔ تاہم 2022 تک تزئین و آرائش کے کام کی وجہ سے یہ گھنٹیاں خاموش رہیں گی۔ خصوصی تعطیلات میں گھنٹیوں کی آواز اب بھی سنی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PA Wire/V. Jones
پراگ کا فلکیاتی گھڑیال
پراگ کے ٹاؤن ہال میں فلکیاتی گھڑیال 1410ء کا ہے اور یہ گوتھک ٹیکنالوجی کا شاہکار ہے۔ ایک افسانوی کہانی کے مطابق یہ گھڑیال مکمل ہونے کے بعد گھڑی ساز کی آنکھیں نکال دی گئی تھیں تاکہ یہ گھڑیال دنیا بھر میں منفرد رہے۔ اور یہ بارہ حواریوں والا گھڑیال بہت منفرد بھی ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اسے دیکھنے پراگ آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/chromorange/Bilderbox
برلن میں ورلڈ ٹائم کلاک
برلن میں الیگزانڈرپلاٹس پر واقع یہ ورلڈ ٹائم کلاک ایک مقابلتاﹰ جدید ماڈل ہے۔ اسے سابقہ مشرقی جرمنی میں صنعتی ڈیزائنر ایرش جان نے ڈیزائن کیا تھا اور اس کی نقاب کشائی 1969ء میں کی گئی تھی۔ تب سے یہ برلن کے شہریوں اور سیاحوں کے لیے ملاقات کی ایک مقبول جگہ بن چکا ہے۔ سب سے اوپر زمین کے نظام شمسی کا ایک آسان ماڈل ہے اور نیچے کا سلنڈر زمین کے 24 ٹائم زونز میں سے ہر ایک کا وقت دکھاتا ہے۔
اگر گھڑیوں کی بات کی جائے تو پھر آپ کو سوئٹزرلینڈ لازمی دیکھنا چاہیے۔ سن 1530ء کا سیٹ گلوگے (ٹائم کلاک) دارالحکومت برن کی تاریخی پہچان ہے۔ یہاں سیاح ہر گھنٹے بعد وقت کے دیوتا کی تصویر کشی کرنے والے کرداروں کا کھیل دیکھ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/A. Filippov
اسٹراسبرگ کا فلکیاتی گھڑیال
اسٹراسبرگ کیتھیڈرل میں نشاۃ ثانیہ کا یہ شاہکار بھی سوئس گھڑی سازوں نے بنایا تھا۔ حواری اور زندگی کے چار ادوار کو ظاہر کرنے والے کردار (بچہ، نابالغ، بالغ اور بوڑھا) ہر روز دوپہر 12:30 پر حرکت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سب کردار موت کی نمائندگی کرنے والی ایک شخصیت کے پاس سے گزرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images GmbH/G. Lenz
میونخ میں گھنٹیوں کا کھیل
جنوبی جرمن شہر میونخ کے سٹی ہال میں دن میں دو یا تین بار گھنٹیوں کی آواز کے ساتھ ساتھ حرکت کرنے والی پتلیاں نمودار ہوتی ہیں۔ یہ پتلیاں میونخ کی تاریخ کے دو واقعات کو پیش کرتی ہیں۔ ایک واقعہ 1568ء میں ڈیوک ولہیلم پنجم کی شادی کا اور دوسرا طاعون کی ہلاکت خیز وبا کے بعد کے رقص کا واقعہ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Warmuth
ویانا کا اینکر کلاک
’آرٹ نووو‘ کے مشہور پینٹر فرانس ماچ کا ڈیزائن کردہ یہ گھڑیال ویانا کے سب سے مشہور مارکیٹ سکوائر میں نصب ہے اور اس پر ایک پُل بنا ہوا ہے۔ 12 گھنٹوں کے دوران ویانا کی تاریخ کے 12 کردار اس پُل کو عبور کرتے ہیں۔ دوپہر بارہ بجے یہ تمام کردار ایک میوزیکل پریڈ بھی کرتے ہیں۔
آسٹریا میں گراس کا کلاک ٹاور دور سے ہی نظر آ جاتا ہے۔ آغاز میں اس گھڑیال میں صرف ایک سوئی تھی، جو گھنٹوں کو ظاہر کرتی تھی اور اسے دور سے ہی دیکھا جا سکتا تھا۔ بعدازاں اس میں منٹ دکھانے والی سوئی بھی شامل کر دی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Votava
وینس کا ٹورے ڈیل اورولوجو
وینس کے سینٹ مارکس اسکوائر پر لگا ہوا یہ فلکیاتی گھڑیال نہ صرف وقت بلکہ چاند اور سورج کے مختلف مراحل بھی دکھاتا ہے۔ سن 1998ء میں آخری بحالی تک ٹاور گارڈ اپنے خاندان کے ساتھ اس ٹاور میں ہی رہتا تھا۔ سن 2006 سے اس گھڑیال کو ڈیجیٹل طور پر مانیٹر کیا جا رہا ہے۔