جاپان میں پیر یکم جنوری کو شدید زلزلے کے بعد سونامی کی وارننگ جاری کی گئی۔ بتایا گیا ہے کہ کئی مقامات پر سونامی کی بلند لہریں ساحلوں سے ٹکرائی ہیں۔ اسی تناظر میں لوگوں کو متاثرہ علاقوں سے دور جانے کو کہا گیا تھا۔
اشتہار
جاپان کے قومی نشریاتی ادارے این ایچ کے پر انتباہی پیغام میں نوٹو خطے میں آنے والے سات اعشاریہ چھ کی شدت کے زلزلے کے بعد مقامی باشندوں سے کہا گیا کہ وہ زیریں علاقوں سے فوری طور پر نکل جائیں۔ امریکی ریاست ہوائی میں قائم پیسیفک سونامی وارننگ سینٹر کے مطابق اس زلزلے کے نتیجے میں تین سو کلومیٹر کے علاقے میں سونامی کی لہریں پیدا ہوئیں۔ جاپانی شہر واجیما میں ڈیڑھ میٹر تک بلند سونامی لہریں ساحل سے ٹکرانے کی اطلاعات ہیں جبکہ کہا گیا ہے کہ نوٹو خطے میں کچھ مقامات پر پانچ میٹر تک بلند لہریں ساحلی علاقے سے ٹکرائیں۔
جاپانی موسمیاتی ایجنسی کے مطابق بحیرہ جاپان سے ملحق نوٹو کے خطے کے اہم جزیرے ہونشو میں زلزلے کے جھٹکے بدستور محسوس کیے جا رہے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ پیر کو مقامی وقت کے مطابق چار بج کر دس منٹ پر شمالی جاپان میں نوٹو کے خطے میں سات اعشاریہ چھ کی شدت کا زلزلہ آیا، جب کہ اس کے آٹھ منٹ بعد چھ اعشاریہ ایک کی شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا گیا۔ ملکی حکام کے مطابق پچھلے کچھ گھنٹوں میں اس خطے میں چار کی شدت سے بلند کے بیس سے زائد جھٹکے محسوس کیے جا چکے ہیں۔
اس زلزلے کے بعد جاپانی نشریاتی اداروں پر خصوصی پروگرام چلائے گئے اور لوگوں سے بار بار استدعا کی گئی کہ وہبلند مقامات کی جانب منتقل ہو جائیں۔
واضح رہے کہ جاپان میں تعمیرات کے سلسلے میں انتہائی سخت ضوابط نافذ ہیں، جن کے تحت یہ یقینی بنایا جاتا ہے کہ عمارات زلزلے کا مقابلہ کر سکیں جب کہ اس ملک میں زلزلے کی صورت میں بچاؤ کے لیے خصوصی تربیتی مشقیں بھی کی جاتی ہیں۔
تاہم جاپان میں اب تک مارچ دو ہزار گیارہ کے زلزلے کی یادداشتیں باقی ہیں، جب کہ نو کی شدت کے زلزلے کے نتیجے میں سونامی کی انتہائی بلند لہروں کے نتیجے میں ساڑھے اٹھارہ ہزار افراد ہلاک اور ہزاروں دیگر لاپتا ہو گئے تھے۔
اکيسويں صدی کے سب سے تباہ کن سونامی
عموماً سب سے تباہ کن سونامی ان ممالک و خطوں سے ٹکراتے ہيں جو بحر الکاہل سے ملتے ہيں۔ ملاحضہ فرمائيے پچھلے بيس سالوں کے دوران آنے والے ايسے ہی چند تباہ کن حادثات کی تفصيلات۔
تصویر: BNPB
انڈونيشيا، سن 2018
بائيس دسمبر سن 2018 کو انڈونيشيا کا ايک چھوٹا سا آتش فشاں اناک کراکٹاؤ پھوٹ پڑا۔ اس سے آبنائے سنڈا ميں سماٹرا اور جاوا کے جزائر کے درميان سونامی کی لہريں پيدا ہوئيں۔ اس تباہ کن سونامی کے نتيجے ميں ساحلی علاقوں ميں دو سو سے زائد افراد ہلاک اور آٹھ سو سے زائد زخمی ہوئے۔
تصویر: BNPB
نيوزی لينڈ، سن 2016
دو برس قبل آنے والا کائيکورا نامی زلزلہ نيوزی لينڈ کی تاريخ ميں نوآبادیاتی دور کے بعد کا دوسرا سب سے بڑا زلزلہ تھا۔ زلزلے کے بعد بھی تقريباً بيس ہزار آفٹر شاکس يا ضمنی جھٹکے محسوس کيے گئے اور ايک سات ميٹر اونچی سونامی کی لہروں نے بھی کئی علاقوں کو اپنی لپيٹ ميں ليا۔ اس واقعے ميں دو افراد کی جانيں گئيں جبکہ درجنوں ديگر زخمی ہوئے۔
تصویر: Imago/Xinhua/L. Huizi
جاپان، سن 2011
سن 2011 ميں جاپان ميں آنے والا سونامی بھی زير سمندر ايک طاقت ور زلزلے کے نتيجے ميں آيا تھا۔ اس سونامی کی وجہ سے تقریبا چاليس ميٹر اونچی لہروں نے ساحلی علاقوں ميں تباہی مچائی۔ اسی سونامی کے سبب فوکوشيما ڈائچی نيوکليئر پاور پلانٹ بھی متاثر ہوا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Tomizawa
چلی، سن 2010
چلی ميں زلزلے آکثر آتے رہتے ہيں۔ وہاں سن 1960 ميں آنے والا زلزلہ آج بھی تاريخ کے طاقتور ترين زلزلوں ميں شمار کیا جاتا ہے۔ فروری سن 2010 ميں وہاں آٹھ اعشاريہ آٹھ کی شدت کا ایک زلزلہ آيا، جس سبب پيدا ہونے والی لہريں اس قدر طاقتور تھيں کہ جاپان تک ميں انتباہی اعلانات کيے گئے۔ چلی کے ساحلی علاقوں سے ٹکرانے والی اس سونامی کی لہريں پانچ سو پجيس افراد کی موت کا سبب بنيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Hernandez
سولومن جزائر، سن 2007
اپريل سن 2007 ميں پاپوا نيو گنی اور سولومن جزائر طاقتور سونامی کی زد ميں آئے۔ اس قدرتی آفت نے باون افراد کی جان لی۔ ايک بارہ ميٹر اونچی لہر نے دو ديہات مسمار کر دیے اور کم از کم نو سو مکانات منہدم ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Robichon
بحر ہند، سن 2004
يہ تصوير تھائی لينڈ کے ايک ساحل کی ہے۔ يہ اس تباہی کا ايک مختصر حصہ دکھاتی ہے، جو سن 2004 ميں آنے والے سونامی کے نتيجے ميں ہوئی تھی۔ ايک سو بيس فٹ کا يہ سونامی چھبيس دسمبر کے روز آيا تھا۔ اس کے نتيجے ميں چودہ ممالک کے افراد متاثر ہوئے اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد دو لاکھ تيس ہزار کے لگ بھگ تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Gacad
6 تصاویر1 | 6
ان سونامی لہروں کی وجہ سےفوکوشیما کا جوہری پلانٹ بھی میلٹ ڈاؤن ہو گیا تھا، جسے چرنوبل کے بعد دنیا کا سب سے سنجیدہ جوہری حادثہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ جاپانی دارالحکومت ٹوکیو بھی ایک صدی قبل سن 1923 میں آنے والے شدید زلزلے سے بری طرح متاثر ہوا تھا۔