جاپان میں مسیحیت کی تاریخ: تشدد اور قتل سے عبارت پانچ صدیاں
23 نومبر 2019
مشرق بعید کی بادشاہت جاپان میں مسیحیت چار سو ستر برس قبل ایک ہسپانوی پادری کے ذریعے پہنچی تھی۔ بعد کی تقریباﹰ پانچ صدیوں کے دوران وہاں مسیحیوں کو زیادہ تر جبر و تشدد، قتل اور مصلوب کر دیے جانے جیسے مظالم کا سامنا رہا۔
اشتہار
کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا اور پاپائے روم فرانسس آج ہفتہ تیئیس نومبر کو اپنے ایک دورے پر جاپان پہنچ گئے، جہاں وہ مختلف مذہبی تقریبات میں حصہ لیتے ہوئے امن کی وکالت اور جوہری ہتھیاروں کی مخالفت کریں گے اور ہیروشیما اور ناگاساکی کے ان شہروں میں بھی جائیں گے، جہاں دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکا نے دو ایٹم بم گرائے تھے۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران اگست 1945ء میں ناگاساکی پر گرائے جانے والے ایٹم بم کی وجہ سے کم از کم 74 ہزار انسان اور ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹم بم کی وجہ سے کم از کم ایک لاکھ 40 ہزار انسان مارے گئے تھے۔ پوپ فرانسس اپنے جس چار روزہ دورے پر جاپان گئے ہیں، اس دوران وہ ہیروشیما اور ناگاساکی بھی جائیں گے۔
پیدائشی طور پر ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے اور اس وقت 82 سالہ پاپائے روم فرانسس کی طویل عرصے سے خواہش تھی کہ انہیں جاپان میں مسیحیت کی تبلیغ کا موقع ملے۔ برسوں پہلے تک تو ان کی یہ خواہش بھی تھی کہ وہ ایک مسیحی مبلغ کے طور پر جاپان جائیں۔
اس سلسلے میں جاپان کے لیے روانہ ہونے سے قبل پاپائے روم نے ویٹیکن سٹی سے ویڈیو کے ذریعے جاپانی عوام کے نام اپنے ایک پیغام میں کہا تھا کہ جوہری ہتھیاروں کا استعمال 'غیر اخلاقی‘ ہے اور اس کے تو امکانات کو بھی پوری قوت سے مسترد کیا جانا چاہیے۔
پوپ کے دورہ جاپان کا منفرد پہلو
کلیسائے روم کے سربراہ پوپ فرانسس دنیا بھر کے تقریباﹰ 1.3 ارب کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا ہیں۔ ان کے دورہ جاپان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مشرق بعید کی اس بہت قدامت پسند اور تاریخی روایات سے جڑی ہوئی بادشاہت کی مجموعی آبادی تو 126 ملین کے قریب ہے لیکن اس میں کیتھولک مسیحی عقیدے کے حامل شہریوں کی تعداد صرف چار لاکھ 40 ہزار یعنی نصف ملین سے بھی کافی کم ہے۔
جاپان جانے سے پہلے پوپ فرانسس نے اپنا تھائی لینڈ کا دورہ مکمل کیا، جہاں انہوں نے مذہبی برداشت اور امن کا پیغام پھیلانے کی کوشش کی۔ جاپان میں بھی پاپائے روم یہی پیغام دیں گے۔
جاپانی عوام کی اکثریت کا مذہب شِنتو عقیدے اور بدھ مت کی ایک ایسی آمیزش ہے، جس میں لوگ فطرت اور ارواح کی پرستش کرتے ہیں ۔ لیکن اس بادشاہت میں، جسے چڑھتے ہوئے سورج کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے، مسیحیوں کی تعداد بہت کم ہونے کے باوجود بہت سے شہری سماجی طور پر کرسمس جیسے مسیحی تہوار بھی مناتے ہیں۔
جاپانی شہنشاہ اور ’دیوتا‘ آکی ہیٹو کی تخت سے دستبرداری
جاپانی شہنشاہ آکی ہیٹو تیس سال تک تخت پر براجمان رہنے کے بعد اپنی ذمے داریوں سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ وہ گزشتہ دو صدیوں کے دوران تخت سے دستبردار ہونے والے پہلے شہنشاہ ہیں۔ جاپان کے نئے شہنشاہ ان کے بیٹے ناروہیٹو ہوں گے۔
تصویر: Reuters/Japan Pool
شاہی خاندان کی روایات میں تبدیلی
جاپانی شاہی خاندان میں آنے والی اس بہت بڑی تبدیلی کا ایک انتہائی اہم پہلو یہ ہے کہ آکی ہیٹو جاپان میں گزشتہ دو سو سال میں تخت سے دستبردار ہونے والے پہلے شہنشاہ ہیں۔ مشرق بعید کی اس بادشاہت میں صدیوں پرانی روایت یہ ہے کہ کوئی بھی شہنشاہ جب ایک بار تخت سنبھال لے، تو وہ عمر بھر یہ ذمے داریاں انجام دیتا رہتا ہے۔
تصویر: Reuters/Japan Pool
تخت سے دستبرداری کی تقریبات
پچاسی سالہ آکی ہیٹو تین عشرے قبل ’چڑھتے ہوئے سورج کی سرزمین‘ جاپان میں تخت پر بیٹھے تھے۔ کل بدھ یکم مئی کو مذہبی اور روایتی تقریبات کے اختتام پر شہنشاہ آکی ہیٹو کی تخت سے دستبرداری کا عمل بھی مکمل ہو جائے گا، جس کی تکمیل صدیوں پرانی روایات پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے کی جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/Japan Pool
سورج کی دیوی سے دعا
ان کی شہنشاہ کے طور پر تخت سے دستبرداری کی شاہی تقریبات آج منگل 30 اپریل کو شروع ہوئیں، جو دو دن جاری رہیں گی۔ آج دن کے آغاز پر یہ تقریبات آکی ہیٹو کی طرف سے شِنٹو عقیدے کے مطابق سورج کی دیوی کی ایک عبادت گاہ میں دعائیہ تقریب کے ساتھ شروع ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/Jiji Press
دیوتاؤں کو اطلاع دینے کی مذہبی تقریب
منگل تیس اپریل کی صبح جب شہنشاہ آکی ہیٹو روایتی جاپانی لباس پہنے ہوئے ’کاشی کودو کورو‘ کی شِنٹو عبادت گاہ گئے، تو اس کا مقصد وہاں عبادت کرتے ہوئے دیوتاؤں کو ان کی تخت سے دستبرداری کی اطلاع دینا تھا۔ یہ شِنٹو عبادت گاہ ’آماتےراسُو‘ نامی شِنٹو دیوی کے نام پر قائم کی گئی تھی، جنہیں جاپان میں شاہی خاندان کے ’براہ راست اجداد‘ میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/Issei Kato
تخت سے دستبرداری کے روایتی تقاضے
آج منگل کے روز پہلے شہنشاہ آکی ہیٹو شاہی محل میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کریں گے، جس میں اعلیٰ ترین حکومتی نمائندوں کے علاوہ شاہی خاندان کے مرد ارکان بھی حصہ لیں گے۔ شاہی قانونی روایات کے مطابق آکی ہیٹو آج رات مقامی وقت کے مطابق بارہ بجے تک شہنشاہ رہیں گے۔ پھر اس کے بعد بدھ کو ان کے بیٹے اور ولی عہد ناروہیٹو نئے شہنشاہ کے طور پر تخت پر بیٹھیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
وراثت کی منتقلی
اس کے بعد ایک اور علیحدہ شاہی تقریب بھی منعقد ہو گی، جس میں نئے شہنشاہ کے طور پر ناروہیٹو کو شاہی تلوار، ہیرے جواہرات، شاہی خاندان کی مہر اور جملہ شاہی اختیارات منتقل کر دیے جائیں گے۔ جاپان میں یہ تقریب شاہی وراثت کی منتقلی کی تقریب کہلاتی ہے۔
تصویر: Reuters/Japan Pool
آکی ہیٹو کی شخصیت
جاپان دنیا کی قدیم ترین بادشاہت ہے، جہاں آکی ہیٹو سے پہلے ان کے والد ہیروہیٹو شہنشاہ تھے۔ ہیروہیٹو دوسری عالمی جنگ کے دوران بھی جاپانی تخت کے مالک تھے اور ان کا جاپانی عوام ایک دیوتا جیسا احترام کرتے تھے۔ اس لیے کہ جاپان میں بادشاہ کو انتہائی مقدس سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/Imperial Household Agency of Japan
آکی ہیٹو کا دور حکمرانی
آکی ہیٹو اپنے والد ہیروہیٹو کے انتقال کے بعد 1989ء میں تخت پر بیٹھے تھے اور 2016ء میں انہوں نے یہ اعلان کر کے ہر کسی کو حیران کر دیا تھا کہ وہ تخت سے دستبردار ہونا چاہتے تھے۔ انہیں ماضی میں سرطان کا مرض بھی لاحق رہا ہے اور ان کے دل کا آپریشن بھی ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Hoshiko
ایک عام جاپانی خاتون سے شادی
جاپانی شاہی خاندان میں آکی ہیٹو کی شخصیت کی خاص بات یہ رہی ہے کہ انہوں نے اس گھرانے کے کردار کو جدید بنانے کی کوشش کی۔ وہ ایسے پہلے شہنشاہ تھے، جنہوں نے ایک عام جاپانی خاتون سے شادی کی تھی۔ یہی خاتون بعد میں ’ملکہ میچی کو‘ بنیں۔
تصویر: Reuters/Kyodo
ایک عوام دوست شہنشاہ
ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جاپانی عوام کے ساتھ اپنے رابطوں اور شاہی منصب پر فائز ہونے کے باوجود عام شہریوں کے لیے اپنی جذباتی قربت کا کئی بار مظاہرہ کیا، جسے بہت سراہا گیا تھا۔ اس انتہائی انسان دوست شاہی رویے کی بڑی مثالیں 2011ء میں آنے والے زلزلے اور سونامی طوفان اور اس سے قبل 1995ء میں کوبے شہر میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے موقع پر بھی دیکھی گئی تھیں۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
ولی عہد ناروہیٹو کون ہیں؟
آئندہ شہنشاہ ناروہیٹو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی اپنے والد کی طرح جاپانی شاہی خاندان کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا عمل جاری رکھیں گے۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں اور انہوں نے آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ ماساکو اوواڈا سے شادی کر رکھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Kawada
ناروہیٹو اور بیٹی کی پیدائش
ناروہیٹو کی عمر اس وقت 59 برس ہے اور وہ ماضی میں ملکی شاہی زندگی کے چند پہلوؤں پر تنقید کرنے سے بھی نہیں گھبرائے تھے۔ ناروہیٹو کی ماساکو اوواڈا سے شادی 1993ء میں ہوئی تھی اور اس سے قبل وہ ایک کامیاب سفارت کار تھیں۔ ماساکو اوواڈا پر جاپانی عوام کی توقعات کے حوالے سے ایک بڑا دباؤ یہ بھی تھا کہ وہ ایک بیٹے کو جنم دے کر ملک کو مستقبل کے لیے تخت کا ایک نیا وارث مہیا کریں، مگر ایسا ہو نہیں سکا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Kyodo
تخت نشینی کے حقدار صرف مرد
ولی عہد ناروہیٹو اور شہزادی اوواڈا کی صرف ایک ہی اولاد ہے اور وہ شہزادی آئیکو ہیں، جو 2001ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ لیکن شہزادی آئیکو مستقبل میں تخت پر ملکہ کے طور پر براجمان نہیں ہو سکیں گی، کیونکہ جاپان میں تخت کا وارث صرف کوئی بادشاہ ہی ہوتا ہے۔
تصویر: AP
مستقبل کے ممکنہ جانشین
ناروہیٹو کے تخت نشین ہونے کے بعد ان کے ممکنہ جانشین ان کے بھائی شہزادہ آکی شینو ہی ہو سکتے ہیں۔ لیکن آکی شینو کا اپنا بھی صرف ایک ہی بیٹا ہے، جس کی عمر اس وقت صرف 12 برس ہے۔ اس طرح ناروہیٹو کے بادشاہ بننے کے بعد دنیا کی اس قدیم ترین بادشاہت کے لیے آکی شینو اور ان کے اس وقت کم عمر بیٹے کے علاوہ ملکی تخت کا کوئی مرد وارث موجود ہی نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Jiji Press/T. Ogura
14 تصاویر1 | 14
جاپان میں مسیحیت کی خونی تاریخ
جاپان میں مسیحی عقیدہ پہلی بار 1549ء میں ایک ہسپانوی پادری کے ذریعے پہنچا تھا۔ لیکن وہاں مسیحیت متعارف کرائے جانے کے ساتھ ہی اس عقیدے کے خلاف خونریز جبر و تشدد کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، جو صدیوں تک جاری رہا تھا۔ سترہویں صدی میں تو جاپانی معاشرے کو باقی ماندہ دنیا کے لیے بالکل ہی بند کر دیا گیا تھا اور مسیحیوں کو ان کا عقیدہ ترک کر دینے پر مجبور کرنے کے لیے ان پر تشدد کیا جاتا تھا، مصلوب کر دیا جاتا تھا اور یہاں تک کہ انہیں پانی میں ڈبو کر مار دیا جاتا تھا۔
'پوشیدہ مسیحی‘
پھر 19 ویں صدی کے وسط میں جب جاپانی معاشرے کو دوبارہ بیرونی دنیا کے لیے کھولا گیا تھا، تو مغربی مسیحی مبلغین ایک بار پھر وہاں پہنچنے لگے تھے۔ یہ مشنری یہ دیکھ کر حیران رہ گئے تھے کہ تب بھی جاپان میں تقریباﹰ 60 ہزار افراد پر مشتمل وہ مسیحی برادری موجود تھی، جو چھپ کر اپنے عقیدے پر عمل کرتی تھی۔ ان افراد نے اپنے لیے کیتھولک مسیحی اقدار اور جاپانی ثقافت کو ملا کر ایسے منفرد مذہبی طور طریقے اپنا لیے تھے، جنہوں نے انہیں صدیوں تک اپنے مذہب پر کاربند رہنے کا حوصلہ دیا تھا۔ تب ایسے جاپانی مسیحی باشندوں کو 'پوشیدہ مسیحیوں‘ کا نام دیا گیا تھا۔
19 ویں صدی کے وسط میں مغربی مشنریوں کو جاپانی زبان میں 'کاکُورے کیری شیتان‘ کہلانے والے ایسے جاپانی مسیحی ناگاساکی شہر میں ملے تھے۔ اسی لیے کل اتوار چوبیس نومبر کو جب پوپ فرانسس ناگاساکی جائیں گے، تو وہ وہاں جوہری ہتھیاروں کی مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ خاص طور پر ماضی کے ان 'پوشیدہ مسیحیوں‘ کو بھی خراج عقیدت پیش کریں گے۔
م م / ع ح (اے ایف پی)
ناگاساکی پر ایٹمی حملے کو 76 برس ہو گئے
1945ء میں دو جاپانی شہروں پر امریکی حملے ابھی تک کسی بھی جنگ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا واحد واقعہ ہیں۔ چھ اگست کو ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے تین دن بعد امریکا نے ناگاساکی پر بھی ایٹم بم گرایا تھا۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
پہلا حملہ
چھ اگست 1945ء کو امریکی جہاز Enola Gay نے ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا تھا۔ اس بم کو’لٹل بوائے‘ کا بے ضرر سا نام دیا گیا تھا۔ اُس وقت اس شہر کی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی اور حملے کے فوری بعد ستر ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ چند دنوں کے دوران مرنے والوں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
حملے میں تاخیر
منصوبے کے مطابق ہیروشیما پر یکم اگست 1945ء کو حملہ کیا جانا تھا تاہم خراب موسم کی وجہ سے امریکیوں کو اسے ملتوی کرنا پڑا۔ پانچ روز بعد بمبار جہاز ’انولا گے‘ تیرہ رکنی عملے کے ساتھ اپنا مشن پورا کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ اس ٹیم کو راستے میں معلوم ہوا کہ وہ ایٹم بم گرانے جا رہی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
دوسرا جوہری حملہ
ہیروشیما پر حملے کے تین روز بعد امریکیوں نے ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا۔ منصوبے کے مطابق دوسرا ایٹم بم کیوٹو پر گرایا جانا تھا۔ امریکی وزارت دفاع کی مخالفت کے بعد یہ ہدف تبدیل کر دیا گیا۔ ’فیٹ مین‘ نامی یہ بم 22 ٹن وزنی تھا۔ اس جوہری بم نے بھی قریب ستر ہزار افراد کی جان لی تھی۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
ہدف کا اسٹریٹیجک انتخاب
1945ء میں ناگاساکی میں اسلحہ ساز کمپنی مٹسوبیشی کی مرکزی دفتر قائم تھا۔ وہاں بحری اڈہ بھی موجود تھا۔ اس شہر میں وہ تارپیڈو بھی تیار کیے گئے تھے، جوجاپان نے پرل ہاربر پر حملے کے لیے استعمال کیے تھے۔ ناگاساکی میں بہت کم ہی جاپانی فوجی تعینات تھے۔ تاہم خراب موسم کی وجہ سے شپ یارڈ کو نشانہ نہ بنایا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہلاکتیں بڑھتی ہی چلی گئیں
حملوں کے بعد بھی کئی ماہ تک تابکاری اثرات ہزاروں افراد کی موت کا باعث بنتے رہے۔ صرف ہیروشیما میں 1945ء کے اختتام تک ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد میں ساٹھ ہزار کا اضافہ ہو چکا تھا۔ ہلاکتوں میں اضافہ تابکاری، بری طرح جھلس جانے اور دیگر زخموں کی وجہ سے ہوا۔ بعد ازاں لگائے گئے اندازوں کے مطابق دوہرے جوہری حملوں میں مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ تیس ہزار تک رہی تھی۔
تصویر: Keystone/Getty Images
خوف کے سائے میں جنگ کا اختتام
ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملوں کے بعد بھی متعدد جاپانی شہریوں کو خدشہ تھا کہ تیسرا ایٹمی بم ٹوکیو پر گرایا جائے گا۔ جاپان نے ہتیھار پھینکنے کا اعلان کیا اور اس طرح ایشیا میں دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جوہری حملوں کے احکامات دیے تھے۔ کئی مؤرخین ان حملوں کو جنگی جرائم قرار دیتے ہیں۔
تصویر: AP
تعمیر نو
ہیروشیما کے تباہ شدہ شہر کو مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔ صرف دریائے اوٹا پر واقع ایک جزیرے پر امن پارک پہلے ہی طرح قائم ہے۔ یہاں پر ایک یادگاری شمع بھی روشن کی گئی ہے۔ یہ شمع اس وقت بجھائی جائے گی، جب دنیا سے آخری ایٹم بم کا خاتمہ ہو جائے گا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
یادگاروں کی تعمیر کی جاپانی روایت
ناگاساکی میں 1955ء سے جوہری بم حملوں کے حوالے سے ایک عجائب گھر اور ان حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں ایک امن پارک قائم ہے۔ جاپان میں 1945ء کے ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی یاد کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں ہیروشیما اور ناگاساکی کو ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images
یادگاری تقریبات
اگست 1945ء کے ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں دنیا بھر میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ ہیروشیما میں منقعد ہونے والی سالانہ تقریب میں حملوں میں بچ جانے والے، ہلاک ہونے والوں کے لواحقین، شہری اور سیاستدان شرکت کرتے ہیں اور اس دوران ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
تصویر: Kazuhiro Nogi/AFP/Getty Images
جوہری ہتھیاروں کے خلاف آواز
پیروشیما میں امن یادگاری پارک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے کہا کہ جاپان دنیا بھر سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے آواز اٹھاتا رہے گا۔