جاپان میں کورونا کا اقتصادی اثر: خودکشیوں میں اضافہ
11 نومبر 2020
جاپان میں، مسلسل چوتھے مہینے،اکتوبر میں بھی، خودکشیوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا۔ تازہ اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں میں یہ اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
اشتہار
جاپان میں پچھلے چار مہینوں سے خودکشیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے اور گزشتہ اکتوبر میں یہ پانچ برس سے زیادہ عرصے کی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ سماجی ماہرین اس کے لیے کورونا وائرس کے اقتصادی مضمرات کو مورد الزام ٹھہرارہے ہیں، جس کا سب سے زیادہ شکار خواتین ہورہی ہیں۔
پولیس کی طرف سے جاری کردہ ابتدائی اعدادو شمار کے مطابق اکتوبر میں مجموعی طورپر 2153 افراد نے خودکشی کرلی جو کہ اس سے پچھلے ماہ یعنی ستمبر کے مقابلے 300 زیادہ تھی اور یہ مئی 2015 کے بعد سے کسی ایک ماہ کے دوران خودکشی کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
اکتوبر میں خودکشی کرنے والوں میں 851 خواتین شامل تھیں جو کہ 2019 میں اسی ماہ کے مقابلے میں 82.6 فیصد زیادہ ہے۔ دوسری طرف مردوں کی خودکشی کی تعداد میں 21.3 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ حالانکہ گزشتہ جولائی تک جاپان میں خودکشی کی تعداد میں مسلسل گراوٹ آرہی تھی لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے اقتصادی صورت حال پر پڑنے والے اثرات کے سبب خودکشی کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔
لاکھوں جاپانی شہری، تنہا زندگی کیوں گزار رہے ہیں؟
04:02
ان کا کہنا ہے کہ اس سے خواتین زیادہ متاثر ہوئی ہیں کیوں کہ ریٹیل یا سروس انڈسٹریز میں ملازمتیں کم ہوگئی ہیں جس کی وجہ سے بیشتر خواتین بے روزگار ہوگئی ہیں۔
حالانکہ جاپان میں قدیم زمانے سے ہی خودکشی کو شرمندگی یا توہین سے بچنے کے ایک طریقہ کار کے طورپر اپنایا جاتا رہا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کے گروپ، جی 7 میں جاپان کو ہی سب سے زیادہ خودکشی کے واقعات کا 'افسوس ناک امتیاز‘ حاصل ہے۔
تاہم 2003 میں جب جاپان میں 34427 لوگوں کے خودکشیوں کے واقعات درج ہوئے توملکی رہنماو ں کی فکر مندی میں اضافہ ہوگیا اور پالیسی سازوں نے 2007 میں خودکشی کے تدارک کے حوالے سے ایک جامع پروگرام تیار کیا۔
اس پروگرام کے تحت حکومت اور کارپوریٹ مشترکہ طور پر ایسے افراد اور گروپ کی نشاندہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کے خودکشی کے خدشات زیادہ ہیں۔ وہ ان کی پریشانیوں کودور کرنے کی کوشش کرنے کے علاوہ انہیں مشاورت بھی فراہم کرتے ہیں۔ لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود بھی خودکشی کا سلسلہ ختم نہیں ہوسکا ہے اور گزشتہ برس 20000 سے زیادہ لوگوں نے خودکشی کرلی۔
ج ا / ص ز (روئٹرز)
ناگاساکی پر ایٹمی حملے کو 76 برس ہو گئے
1945ء میں دو جاپانی شہروں پر امریکی حملے ابھی تک کسی بھی جنگ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا واحد واقعہ ہیں۔ چھ اگست کو ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے تین دن بعد امریکا نے ناگاساکی پر بھی ایٹم بم گرایا تھا۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
پہلا حملہ
چھ اگست 1945ء کو امریکی جہاز Enola Gay نے ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا تھا۔ اس بم کو’لٹل بوائے‘ کا بے ضرر سا نام دیا گیا تھا۔ اُس وقت اس شہر کی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی اور حملے کے فوری بعد ستر ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ چند دنوں کے دوران مرنے والوں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
حملے میں تاخیر
منصوبے کے مطابق ہیروشیما پر یکم اگست 1945ء کو حملہ کیا جانا تھا تاہم خراب موسم کی وجہ سے امریکیوں کو اسے ملتوی کرنا پڑا۔ پانچ روز بعد بمبار جہاز ’انولا گے‘ تیرہ رکنی عملے کے ساتھ اپنا مشن پورا کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ اس ٹیم کو راستے میں معلوم ہوا کہ وہ ایٹم بم گرانے جا رہی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
دوسرا جوہری حملہ
ہیروشیما پر حملے کے تین روز بعد امریکیوں نے ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا۔ منصوبے کے مطابق دوسرا ایٹم بم کیوٹو پر گرایا جانا تھا۔ امریکی وزارت دفاع کی مخالفت کے بعد یہ ہدف تبدیل کر دیا گیا۔ ’فیٹ مین‘ نامی یہ بم 22 ٹن وزنی تھا۔ اس جوہری بم نے بھی قریب ستر ہزار افراد کی جان لی تھی۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
ہدف کا اسٹریٹیجک انتخاب
1945ء میں ناگاساکی میں اسلحہ ساز کمپنی مٹسوبیشی کی مرکزی دفتر قائم تھا۔ وہاں بحری اڈہ بھی موجود تھا۔ اس شہر میں وہ تارپیڈو بھی تیار کیے گئے تھے، جوجاپان نے پرل ہاربر پر حملے کے لیے استعمال کیے تھے۔ ناگاساکی میں بہت کم ہی جاپانی فوجی تعینات تھے۔ تاہم خراب موسم کی وجہ سے شپ یارڈ کو نشانہ نہ بنایا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہلاکتیں بڑھتی ہی چلی گئیں
حملوں کے بعد بھی کئی ماہ تک تابکاری اثرات ہزاروں افراد کی موت کا باعث بنتے رہے۔ صرف ہیروشیما میں 1945ء کے اختتام تک ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد میں ساٹھ ہزار کا اضافہ ہو چکا تھا۔ ہلاکتوں میں اضافہ تابکاری، بری طرح جھلس جانے اور دیگر زخموں کی وجہ سے ہوا۔ بعد ازاں لگائے گئے اندازوں کے مطابق دوہرے جوہری حملوں میں مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ تیس ہزار تک رہی تھی۔
تصویر: Keystone/Getty Images
خوف کے سائے میں جنگ کا اختتام
ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملوں کے بعد بھی متعدد جاپانی شہریوں کو خدشہ تھا کہ تیسرا ایٹمی بم ٹوکیو پر گرایا جائے گا۔ جاپان نے ہتیھار پھینکنے کا اعلان کیا اور اس طرح ایشیا میں دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جوہری حملوں کے احکامات دیے تھے۔ کئی مؤرخین ان حملوں کو جنگی جرائم قرار دیتے ہیں۔
تصویر: AP
تعمیر نو
ہیروشیما کے تباہ شدہ شہر کو مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔ صرف دریائے اوٹا پر واقع ایک جزیرے پر امن پارک پہلے ہی طرح قائم ہے۔ یہاں پر ایک یادگاری شمع بھی روشن کی گئی ہے۔ یہ شمع اس وقت بجھائی جائے گی، جب دنیا سے آخری ایٹم بم کا خاتمہ ہو جائے گا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
یادگاروں کی تعمیر کی جاپانی روایت
ناگاساکی میں 1955ء سے جوہری بم حملوں کے حوالے سے ایک عجائب گھر اور ان حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں ایک امن پارک قائم ہے۔ جاپان میں 1945ء کے ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی یاد کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں ہیروشیما اور ناگاساکی کو ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images
یادگاری تقریبات
اگست 1945ء کے ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں دنیا بھر میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ ہیروشیما میں منقعد ہونے والی سالانہ تقریب میں حملوں میں بچ جانے والے، ہلاک ہونے والوں کے لواحقین، شہری اور سیاستدان شرکت کرتے ہیں اور اس دوران ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
تصویر: Kazuhiro Nogi/AFP/Getty Images
جوہری ہتھیاروں کے خلاف آواز
پیروشیما میں امن یادگاری پارک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے کہا کہ جاپان دنیا بھر سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے آواز اٹھاتا رہے گا۔