1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجاپان

جاپان واقعی ایک ’زینوفوبک‘ ملک ہے؟

12 مئی 2024

امریکی صدر جو بائیڈن کے تبصرے کے بعد نہ صرف جاپانی حکومت بلکہ جاپان کے عوام بھی غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ کیا جاپان واقعی ایک ’زینوفوبک‘ یعنی غیرملکیوں سے نفرت کرنے والا ملک ہے؟

ٹوکیو حکومت نے امریکی صدر جو بائیڈن کے اس تبصرے پر ''مایوسی‘‘ کا اظہار کیا ہے، جس میں انہوں نے جاپان کو ''زینوفوبک‘‘ قرار دیا تھا
ٹوکیو حکومت نے امریکی صدر جو بائیڈن کے اس تبصرے پر ''مایوسی‘‘ کا اظہار کیا ہے، جس میں انہوں نے جاپان کو ''زینوفوبک‘‘ قرار دیا تھاتصویر: ZUMA Press/IMAGO

ٹوکیو حکومت نے امریکی صدر جو بائیڈن کے اس تبصرے پر ''مایوسی‘‘ کا اظہار کیا ہے، جس میں انہوں نے جاپان کو ''زینوفوبک‘‘ قرار دیا تھا۔ صدر بائیڈن نے یکم مئی کی شام ایک فنڈ ریزنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جاپان کے ساتھ ساتھ بھارت، چین اور روس کے بارے میں بھی یہی تبصرہ کیا تھا۔ انہوں نے ان ممالک کی اقتصادی صورت حال کا موازنہ امریکہ سے کیا اور کہا کہ امریکی معیشت میں نمو کی وجہ تارکین وطن ہیں۔

انہوں نے جاپان کے اقتصادی مسائل کی ذمہ داری غیر ملکیوں کے لیے نفرت جیسے رویے پر عائد کی، ''چین کیوں بری طرح اقتصادی جمود کا شکار ہے؟ جاپان کو مسائل کا سامنا کیوں ہے؟ روس اور بھارت میں ایسے حالات کیوں ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ وہ غیر ملکیوں کے لیے زینو فوبک ہیں۔ وہ اپنے ہاں تارکین وطن نہیں چاہتے۔ تارکین وطن ہی ہمیں طاقت ور بناتے ہیں۔‘‘

کییوڈو نیوز نے ایک سرکاری اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ ٹوکیو حکومت نے سفارتی چینلز کے ذریعے امریکہ کو مطلع کیا ہے کہ جاپانی پالیسیوں سے متعلق صدر بائیڈن کے ریمارکس ''درست فہمی‘‘ پر مبنی نہیں تھے۔ دریں اثنا بہت سے جاپانی اور غیر ملکی باشندوں نے بھی صدر بائیڈن کے الفاظ کے انتخاب سے اپنے اختلاف کا اظہار کیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے حکام اب اس معاملے کی شدت کو کم کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرین جین پیئر نے صحافیوں کو بتایا کہ صدر بائیڈن صرف اس بات پر روشنی ڈال رہے تھے کہ کس طرح امریکہ میں تارکین وطن کو خوش آمدید کہنے کی روایت موجود ہے۔

ٹوکیو حکومت نے امریکی صدر جو بائیڈن کے اس تبصرے پر ''مایوسی‘‘ کا اظہار کیا ہے، جس میں انہوں نے جاپان کو ''زینوفوبک‘‘ قرار دیا تھاتصویر: picture alliance/AP

وائٹ ہاؤس کی ترجمان کا مزید کہنا تھا، ''ہمارے اتحادی اور شراکت دار اچھی طرح جانتے ہیں کہ صدر بائیڈن ان کا بہت زیادہ احترام کرتے ہیں۔‘‘

بہت سے جاپانی صرف الفاظ کے چناؤ کے حوالے سے ناراض نہیں بلکہ وہ اس بات پر بھی غصے میں ہیں کہ جاپان کو چین اور روس کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ ان دونوں ممالک پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام بھی ہے اور تاریخی طور پر ان کے جاپان کے ساتھ سفارتی تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔

'زینوفوبیا بہت سخت لفظ‘ ہے

افریقی نژاد امریکی میلکم ایڈمز گزشتہ 48 برسوں سے جاپان میں مقیم ہیں اور ان کے خیال میں بھی امریکی صدر نے جاپان کے لیے جو لفظ استعمال کیا، وہ درست نہیں ہے۔ ان کا ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''یہ درست ہے کہ جاپان تاریخی طور پر سخت امیگریشن پالیسیوں کا حامل رہا ہے۔ لیکن اس ملک نے حالیہ برسوں کے دوران غیر ملکی کارکنوں کو خوش آمدید کہنے اور ان کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے جو اہم پیش رفت کی ہے، اسے تسلیم کیا جانا ضروری ہے۔‘‘

اس وقت 74 سالہ ایڈمز کے مطابق جاپان نے تسلیم کیا ہے کہ اسے ایک عمر رسیدہ آبادی والے معاشرتی بحران کا سامنا ہے، ''جاپان میں بچوں کی شرح پیدائش کم ہے اور لیبر کی کمی کو پورا کرنے کے لیے آہستہ آہستہ غیرملکیوں کے لیے دروازے کھولے جا رہے ہیں۔‘‘

ایڈمز کے بقول وہ خود یہ محسوس کرتے ہیں کہ جاپانی معاشرے نے انہیں قبول کر لیا ہے، ''یہ ملک تبدیل ہو رہا ہے اور آبادی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے اس کی کوششوں کو تنقید کرنے کے بجائے سراہا جانا چاہیے۔‘‘

جاپان میں بچوں کی شرح پیدائش کم ہے اور لیبر کی کمی کو پورا کرنے کے لیے آہستہ آہستہ غیرملکیوں کے لیے دروازے کھولے جا رہے ہیںتصویر: Kim Kyung-Hoon/REUTERS

ٹوکیو کے ایک تاجر کین کاٹو بھی امریکی صدر کے تبصرے پر سخت ناراض ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''یہ الزام سراسر غلط اور غیر منصفانہ ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ جاپانی قوم دنیا کی سب سے زیادہ خیرمقدم کرنے والی قوموں میں سے ایک ہے، جو بائیڈن کے بیان کے بالکل برعکس ہے۔‘‘

کاٹو نے نشاندہی کی کہ تاریخی طور پر جدید جاپان سن 1868 کے میجی دورِ حکومت میں ہی بیرونی دنیا اور غیر ملکی خیالات کے لیے کھل گیا تھا۔

امتیازی پولیسنگ

جاپان میں ہیومن رائٹس واچ کے پروگرام آفیسر ٹیپی کاسائی کا کہنا ہے، ''اس بات کو عام کرنا کہ تمام جاپانی غیر ملکیوں کو ناپسند کرتے یا خوش آمدید نہیں کہتے، بالکل بے بنیاد ہے۔‘‘ تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ جاپانی معاشرے کے ''کچھ پہلوؤں‘‘ کو غیر ملکیوں کو کم قبول کرنے والا سمجھا جا سکتا ہے۔

جاپان میں بچوں کی شرح پیدائش کم ہے اور لیبر کی کمی کو پورا کرنے کے لیے آہستہ آہستہ غیرملکیوں کے لیے دروازے کھولے جا رہے ہیںتصویر: Naoki Ueda/AP/picture alliance

ایسی اطلاعات ہیں کہ غیرملکیوں کے لیے گھر کرائے پر لینا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ جاپانی مالکان غیر ملکی کرایہ داروں کو قبول کرنے سے گریزاں ہیں۔ دوسری جانب غیر ملکیوں کو روکنے اور عام جاپانیوں سے کہیں زیادہ پوچھ گچھ کرنے کے الزامات کے تحت پولیس کے خلاف ایک قانونی مقدمہ بھی چل رہا ہے۔

اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟

جاپان میں رہائشی اجازت نامہ حاصل کرنا ایک مشکل امر ثابت ہو سکتا ہے۔ جاپان ٹائمز نے وزارت انصاف کی ایک حالیہ رپورٹ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ جاپان نے سن 2023 میں 13,823 درخواست دہندگان میں سے صرف 303 پناہ گزینوں کی درخواستیں قبول کیں۔ سن 2022 میں یہ تعداد 202 رہی تھی۔

جاپان کی ایسی پالیسیوں کو انسانی حقوق کے گروپ بھی تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔ اس ملک کے عوام کی ایک بڑی تعداد غیرملکیوں کے ملک میں آنے اور ملازمتیں اختیار کرنے کی مخالف دکھائی دیتی ہے۔

اپریل میں جاپان کے آساہی اخبار کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے کے مطابق 62 فیصد جاپانی غیرملکی ہنر مند کارکنوں کو مزید ویزے دینے کی حکومتی پالیسی کی حمایت کرتے ہیں۔ سن 2018 میں یہ حمایت صرف 44 فیصد تھی کچھ حلقوں میں بڑے پیمانے پر امیگریشن کے خلاف مزاحمت ابھی باقی ہے۔

ٹوکیو کے تاجر کین کاٹو کے مطابق یہ رویہ ''غیر محدود امیگریشن‘‘ کے خلاف جاپان کے عمومی مزاج کی نشاندہی کرتا ہے، ''میں اسے زینوفوبیا کے طور پر نہیں دیکھتا، یہ صرف ایک حساس پالیسی ہے۔‘‘

اا / م م (جولیان رایل، ٹوکیو)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں