100611 Fukushima Aufarbeitung
10 جون 2011ابھی تک بھی یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ فوکوشیما پلانٹ کے ری ایکٹرز میں ہونے والے ’میلٹ ڈاؤن‘ کے اثرات کس حد تک سنگین ہیں۔ ممنوعہ زون سے باہر بھی تابکاری کے اثرات مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔
جاپان میں ایٹمی نگرانی کے محکمے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق طاقتور زلزلے اور ہولناک سونامی لہروں کے صرف پانچ گھنٹے بعد ہی فوکوشیما کے ری ایکٹر نمبر ایک میں میلٹ ڈاؤن کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ ری ایکٹر کو ٹھنڈا کرنے کے نظام کو فعال رکھنے کی ضمانت دینے والے مختلف نظاموں میں سے کوئی ایک بھی کام نہیں کر رہا تھا۔ پلانٹ کے دوسرے اور تیسرے بلاک میں بھی غالباً یہی کچھ ہوا۔
اس قسم کے استثنائی حالات اور بجلی کی ترسیل مکمل طور پر منقطع ہونے کی صورت میں کیا کرنا چاہیے، اس حوالے سے باقاعدہ ضوابط موجود ہیں تاہم ایٹمی بجلی گھروں کی نگرانی کے جاپانی محکمے کے سرکردہ عہدیدار ہاروکی مادا رامے نے حال ہی میں جاپانی ٹیلی وژن پر اعتراف کرتے ہوئے ہوئے کہا:’’مَیں نے اُس نکتے پر زیادہ توجہ نہیں دی تھی، جس میں اس امکان کا ذکر کیا گیا تھا کہ بجلی فراہم کرنے والے سبھی بیرونی ذرائع کام کرنا بند کر سکتے ہیں۔‘‘
گزشتہ بیس برسوں کے دوران اس ضابطے پر کوئی نظر ثانی نہیں کی گئی تھی۔ ہاروکی مادا رامے اس نتیجے پر پہنچے:
’’جوہری توانائی کے جاپانی ماہرین اپنی ہی ایک چھوٹی سی دُنیا میں رہ رہے تھے اور وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ معاملات پر آزادی سے اور بغیر پیشگی شرائط کے بحث کر سکیں۔ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں سونامی جیسی قدرتی آفات اس جوہری حادثے کی ذمہ دار تھیں لیکن میرا خیال ہے کہ یہ حادثہ انسانی کوتاہی کا نتیجہ تھا۔‘‘
اب جاپان میں باقی ماندہ تمام 54 ایٹمی ری ایکٹرز میں حفاظتی اقدامات بہتر بنائے جا رہے ہیں۔ لیکن اگر فوکوشیما کا حادثہ انسانی کوتاہی کا نتیجہ تھا تو پھر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آیا ایٹمی بجلی گھروں میں ایک سو فیصد سلامتی سرے سے ممکن بھی ہے۔ حادثے کے شکار فوکوشیما پلانٹ کے ری ایکٹر نمبر ایک کے حوالے سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ تابکاری سے متاثرہ پانی کا کیا کیا جائے؟ ان ری ایکٹرز کا انتظام چلانے والی کمپنی ٹیپکو کے ایک ترجمان نے کہا کہ پندرہ جون کو شروع کیے جانے والے ایک پروگرام کے تحت خصوصی فلٹرز استعمال کرتے ہوئے روزانہ بارہ سو ٹن پانی کو تابکاری سے پاک کیا جائے گا۔ بعد ازاں یہی پانی ری ایکٹرز کو ٹھنڈا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
اس سال کے آخر تک ایک عبوری رپورٹ سامنے آنے کی توقع ہے، جس میں بتایا جائے گا کہ اِس حادثے کی ذمہ داری کس کس پر عائد ہوتی ہے اور آئندہ اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے کیا کچھ کیا جانا چاہیے۔
رپورٹ: پیٹر کیویاتھ (ٹوکیو)/ امجد علی
ادارت: امتیاز احمد