جاپان کے صد سالہ بوڑھے کہاں گئے
13 اگست 2010ایک خوف کی کیفیت کئی خاندانوں میں پائی جاتی ہے کہ ان بوڑھوں کے ساتھ کوئی مجرمانہ زیادتی کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو۔ حکام کا خیال ہے کہ لاپتہ ہو جانے والے سو سال سے زائد عمرکے بوڑھے اپنی طبی عمر پا چکے ہیں۔ ایسے لاپتہ بوڑھوں کی ابتدائی تعداد دو سو کے قریب بتائی جا رہی ہے۔
اس مناسبت سے جاپانی معاشرے کے بعض لوگوں نے سماجی اور حکومتی حلقوں کی سردمہری کی شکایت بھی کی ہے کہ یہ لوگ ایسے طویل العمر افراد کے لاپتہ ہو جانے سے یکسر نا واقف ہیں۔ ان افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ طویل العمری بہتر ہے لیکن یہ لوگ اپنے ہی معاشرے میں کٹ کر رہ گئے تھے۔ ان کے غائب ہو جانے کی ایک بڑی وجہ ان افراد کی تنہائی اور مرکزی سماجی دھارے سے کٹ جانا بھی بتایا گیا ہے۔
ان بوڑھے افراد کے لاپتہ ہو جانے کا حکومت کو احساس اس وقت ہوا جب پولیس نے دریافت کیا کہ جولائی میں ایک سو گیارہ برس کی ہو جانے والی سوگن کاٹو اپنے اپارٹمنٹ پر موجود نہیں۔ ٹوکیو کی شہری انتظامیہ کے مطابق وہ شہر کی سب سے طویل العمر خاتون تھیں لیکن وہ بتیس سال پہلے ہی فوت ہو چکی تھیں اور ان کی جزوی طور پر حنوط شدہ لاش اب ملی ہے۔ پولیس اب اس کے لواحقین سے پینشن فراڈ کی پوچھ گچھ شروع کرچکی ہے۔
سوگن کاٹو کی موت کی خبر کے بعد سارے جاپان میں صد سالہ بوڑھوں کی تلاش کا عمل شروع کیا گیا تو حکومت حیران رہ گئی کہ بے شمار ایسے افراد لاپتہ ہو چکے ہیں اور قیاس کیا جا رہا ہے کہ وہ وفات پا چکے ہوں گے۔ ان خبروں سے جاپان کی سماجی نظام پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں کہ اقتصادی ترقی کے باوجود اندرون خانہ طویل عمر کے بوڑھے کیسے نظر انداز کردیے گئے تھے۔ اس کیفیت کا ادراک اور احاطہ حکومتی حلقوں کے ساتھ سماجی حلقے نہیں کر پا رہے ہیں۔
جاپان میں محکمہ آبادی کے مطابق گزشتہ سال تک 40 ہزار تین سو 99 ایک سو سال سے زائد عمر کے افراد ریکارڈ میں زندہ دکھائے گئے تھے۔ عوامی حلقے حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ایسے افراد کا ریکارڈ از سر نو مرتب کیا جائے اور صد سالہ بوڑھوں کی صحت اور معمولات زندگی کے بارے میں خصوصی پالیسی مرتب کی جائے۔ متعدد افراد کا خیال ہے کہ اصل میں اب یہ تعداد چند سو افراد پر مشتمل ہے۔ رواں برس اکیس ستمبر کو جاپان میں سو سال یا اس سے زائد عمر کے بوڑھوں کے احترام میں خصوصی دن بھی منایا جائے گا۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: ندیم گِل