جاپان: ہیروشیما ایٹمی حملے کی 75 ویں برسی پر محدود تقریب
6 اگست 2020
جاپان کے شہر ہیروشیما پر امریکا کے ذریعہ ایٹمی حملے کی 75 ویں برسی، کورونا وائرس کی وجہ سے، محدود طور منائی گئی۔
اشتہار
ہیروشیما ایٹمی حملے، 75 برس بیت گئے
02:08
ہیروشیما پر امریکا کی طرف سے کیے گئے ایٹمی حملے کی یاد میں جاپان ہر سال امن تقریبات کا وسیع پیمانے پر انعقاد کرتا ہے لیکن کورونا وائرس کی وبا کے مد نظر اس مرتبہ دعائیہ تقریب میں محدود تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ اس میں حملے میں زندہ بچ جانے والے متاثرین، ان کے رشتہ دار، غیر ملکی اہم شخصیات شامل تھیں۔ انہوں نے عالمی امن کے لیے دعائیں کیں۔
ہیروشیما کے میئر کازومی ماتوسی نے جاپان کے وزیر اعظم شنزو آبے کی موجودگی میں عالمی رہنماوں سے نیوکلیائی تخفیف اسلحہ کے تئیں اپنے وعدوں پر سنجیدگی سے عمل کرنے کی اپیل کی۔
اس موقع پر ہیروشیما پیس میموریل میں منعقدہ تقریب میں موجود لوگوں نے عین آٹھ بجکر 15منٹ پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔ اسی وقت آج سے 75 برس قبل شہر پر پہلا نیوکلیائی بم گرایا گیا تھا۔ اس میں ایک لاکھ 40 ہزار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
کازومی ماتوسی نے کہا ”ہمیں اس تکلیف دہ واقعہ کا اعادہ کرنے کی اجازت کبھی نہیں دینی چاہیے۔ سول سوسائٹی کو خود غرض قوم پرستی کو مسترد کردینا چاہیے اور تمام طرح کے خطرات کے خلاف متحد ہوجانا چاہیے۔"
کووڈ 19کی وجہ سے محدود تقریب
خیال رہے کہ امریکا نے چھ اگست 1945کو پہلا ایٹم بم ہیروشیما پر گرایا تھا، جس سے شہر تباہ ہوگیا۔ 1945 کے اواخر تک شہر کی تقریباً 40فیصد آبادی یعنی لگ بھگ ایک لاکھ 40 ہزار افراد، جن میں بیشتر عام شہری تھے، ہلاک ہوگئے۔
امریکا نے اس کے تین دن بعد نو اگست کو جاپان کے جنوبی شہر ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا جس میں تقریباً 74 ہزار افرا دلقمہ اجل بن گئے۔ اس کے بعد جاپان نے 15 اگست 1945 کو اتحادی فوج کے سامنے خودسپردگی کردی اور دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ ہوگیا۔
اس سال کی امن تقریبات میں کورونا وائرس کی وجہ سے ایک ہزار سے بھی کم لوگوں نے شرکت کی جب کہ عام طورپر اس سے دس گنا لوگ اس تقریب میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ بیشتر شرکاء نے سیاہ کپڑے پہن رکھے تھے اور چہروں پر ماسک لگارکھا تھا۔ کرسیوں کو ایک دوسر ے سے فاصلے پر رکھا گیا تھا۔
چونکہ عام لوگ اس سال تقریب میں شرکت نہیں کرسکے اس لیے تقریب کو آن لائن براڈکاسٹ کیا گیا۔ اس موقع پر منعقد کیے جانے والے بہت سارے روایتی پروگراموں کو منسوخ کردیا گیا۔ وزیر اعظم شنزو آبے نے ایٹمی حملے میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں گلہائے عقیدت پیش کیے۔
تخفیف اسلحہ کی اپیل
ہیروشیما کے میئر ماتوسی نے عالمی رہنماوں سے اپیل کی کہ وہ نیوکلیائی تخفیف اسلحہ کے اپنے وعدوں پر زیادہ سنجیدگی سے عمل کریں۔ اس حوالے سے انہوں نے اپنے ملک کی ناکامی کی جانب بھی اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا”میں حکومت جاپان سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ (ایٹم بم حملے میں بچ جانے والو ں) کی درخواستوں پر توجہ دے اور نیوکلیائی ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے پر دستخط کرے، اس کی توثیق کرے اور اس کا ایک فریق بنے۔" انہوں نے مزید کہا کہ”چونکہ جاپان ہی وہ واحد ملک ہے جسے نیوکلیائی حملے کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے اس لیے اسے اس کے خلاف پوری دنیا کے عوام کو متحد کرنے کے لیے پیش رفت کرنی چاہیے۔“
نیوکلیائی ہتھیاروں پر پابندی عائد کرنے کے لیے چھوٹے غیر نیوکلیائی ملکوں کی طرف سے پیش کیے گئے 'نیوکلیائی ہتھیاوں پر پابندی کے 2017 کا معاہدہ‘ پردنیا کی بڑی طاقتوں کی طرح جرمنی اور جاپان نے بھی ابھی دستخط نہیں کیے ہیں۔ بعض ناقدین جاپانی حکومت کے رویے پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جاپان میں پچاس ہزار امریکی فوج موجود ہیں اور انہیں امریکی نیوکلیائی تحفظ حاصل ہے۔ جاپان دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنی دفاع کے لیے امریکا پر انحصار کرتا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے عالمی جوہری طاقتوں پر اس بات کے لیے نکتہ چینی کی کہ ان کی کوتاہیوں کے سبب نیوکلیائی ہتھیاروں پر پابندی سے متعلق بین الاقوامی معاہدے بے اثر اور ختم ہوتے جارہے ہیں۔ انہوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے دوسروں کے لیے ایک ناقص مثال قائم ہوتی ہے اور اس سے شمالی کوریا جیسے ممالک کو بھی جوہری ہتھیاروں کو حاصل کرنے کا حوصلہ ملا۔" ہائیکو ماس کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال اس لیے پیدا ہوئی کیونکہ جوہری طاقتیں ”وقتی مفاد کے لیے غیر ذمہ دارانہ طاقت کی سیاست کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔“
ج ا / ص ز (ایجنسیاں)
اس برس تک کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم ہیں؟
سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم ہوئی ہے لیکن جوہری صلاحیت رکھنے والے نو ممالک اپنے ایٹم بموں کو جدید اور مزید مہلک بھی بنا رہے ہیں۔ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/J. Samad
روس
سپری کے مطابق 6,375 جوہری ہتھیاروں کے ساتھ روس سب سے آگے ہے۔ روس نے 1,570 جوہری ہتھیار نصب بھی کر رکھے ہیں۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سن 2015 میں روس کے پاس آٹھ ہزار جوہری ہتھیار تھے، جن میں سے متروک ہتھیار ختم کر دیے گئے۔ سپری کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس اور امریکا جدید اور مہنگے جوہری ہتھیار تیار کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Anotonov
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس اس وقت 5,800 ایٹمی ہتھیار ہیں، جن میں 1,750 تعنیات شدہ بھی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ جوہری ہتھیاروں کی تجدید کر رہی ہے اور امریکا نے 2019 سے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کے بارے میں معلومات عام کرنے کی پریکٹس بھی ختم کر دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Riedel
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 320 ایٹم بم ہیں اور سپری کے مطابق چین اس وقت جوہری اسلحے کو جدید تر بنا رہا ہے۔ نصب شدہ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں معلوات دستیاب نہیں ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture alliance/Xinhua/L. Bin
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 290 بتائی جاتی ہے جن میں سے 280 نصب شدہ ہیں۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔ سپری کے مطابق فرانس کسی حد تک اب بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں معلومات عام کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 215 جوہری ہتھیار ہیں، جن میں سے 120 نصب ہیں۔ برطانیہ نے اپنا جوہری ذخیرہ کم کر کے 180 تک لانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Poa/British Ministry of Defence/T. Mcdonal
پاکستان
پاکستان کے پاس 160 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سپری کے مطابق سن 1998 میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان نے اپنے ہتھیاروں کو متنوع بنانے اور اضافے کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مطابق ان کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974 میں پہلی بار اور 1998 میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس 150 ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔ بھارت اور پاکستان اپنے میزائل تجربات کے بارے میں تو معلومات عام کرتے ہیں لیکن ایٹمی اسلحے کے بارے میں بہت کم معلومات فراہم ی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس مبیبہ طور پر قریب 90 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیل اب بھی اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کوئی بھی معلومات عام نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Kahana
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
شمالی کوریا 30 سے 40 جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ گزشتہ برس صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کی ملاقات کے بعد شمالی کوریا نے میزائل اور جوہری تجربات روکنے کا اعلان کیا تھا، لیکن پھر اس پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں بھی ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/KCNA/Korea News Service
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔