’جاگ اٹھو‘، جرمنی میں بائیں بازو کی نئی سیاسی تحریک
4 ستمبر 2018
جرمنی کو انتہائی دائیں بازو کے فعال ہونے کے چیلنج کا سامنا ہے۔ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے بائیں بازو کی ایک خاتون سیاست دان نے ایک تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اشتہار
بائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعت ڈی لنکے سے تعلق رکھنے والی خاتون سیاستدان سارا واگن کنیشٹ نے ایک نئی سیاسی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس نئی سیاسی تحریک کو ’ آؤف شٹیہن‘ یا جاگ اٹھو کا نام دیا گیا ہے۔ یہ تحریک جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کے بڑھتے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے۔
اس وقت اس نئی تحریک کو ایک لاکھ افراد کی حمایت حاصل ہو چکی ہے۔ واگن کنیخٹ نے اپنی تحریک کے حوالے سے واضح کیا کہ اس کے پلیٹ فارم سے موجودہ سیاسی عمل پر عدم اطمینان کے علاوہ ایک فلاحی ریاست کی ازسرنو تشکیل کے ساتھ ساتھ پرامن خارجہ پالیسی کو فروغ دیا جائے گا۔
جرمن سیاستدان سارا واگن کنیشٹ نے نیوز میگزین ڈیئر اشپیگل سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی تحریک کے مقاصد کے حوالے سے کہا کہ یہ دوسری بائیں بازو کی تحریکوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنی منصوبہ بندی کرے گی۔ انہوں اس حوالے سے امریکی سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی، برطانوی لیبر پارٹی کے علاوہ امریکی سیاسی رہنما بیرنی سینڈرز اور برطانوی سیاستدان جیریمی کاربن کی مثال بھی دی۔
جرمن سیاسی منظر کے مبصرین اس وقت دائیں بازو کی سیاسی جماعت آلٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کی بڑھتی سرگرمیوں کے مقابلے میں سینٹر لیفٹ سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی فعالیت کو ناکافی خیال کرتے ہیں۔ انہوں نے ایسے خدشات کا بھی اظہار کیا ہے کہ بائیں بازو کی ایک نئی تحریک سے جرمن بائیں بازو کے حلقے منقسم ہو جائیں گے۔
واگن کنیشٹ کا خیال ہے کہ انتہائی دائیں بازو کے چیلنج کے لیے ’آؤف شٹیہن‘ ایک بھرپور تحریک ثابت ہو گی اور انہیں ڈی لنکے سیاسی جماعت کے علاوہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی بعض شخصیات کی حمایت بھی حاصل ہے۔ یہ تحریک باضابطہ طور پر آج سے فعال کی جا رہی ہے۔
اس تحریک کے حوالے سے کیے جانے والے تازہ ترین رائے عامہ کے جائزے میں جرمن عوام کی بڑی تعداد کا خیال ہے کہ ’آؤف شٹیہن‘ تحریک کی کامیابی کا امکان بہت ہی کم ہے۔ اس رائے عامہ کے جائرے میں باسٹھ فیصد جواب دینے والوں کی سوچ ہے کہ بائیں بازو کی تحریک کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔
رائے عامہ کے اس جائزے کا اہتمام ٹی آن لائن نیوز ویب سائٹ نے کیا تھا۔ اس تحریک کے مستقبل کے بارے میں پانچ ہزار جرمن شہریوں نے جواب دیا۔ اس میں تقریباً بیس فیصد افراد نے خیال ظاہر کیا ہے کہ بائیں بازو کی یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے اور اس میں ایک بھرپور سیاسی قوت بننے کی اہلیت پائی جاتی ہے۔
یورپ میں دائیں بازو کی سرکردہ عوامیت پسند خواتین رہنما
ایک نئی تحقیق کے مطابق دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی عوامیت پسند یورپی سیاسی جماعتوں میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے، یورپ میں دائیں بازو کی سرکردہ پاپولسٹ خواتین رہنما کون کون سی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فرانس کی مارین لے پین
مارین لے پین اپنی مہاجرین اور یورپی یونین مخالف سوچ کی وجہ سے شہرت رکھتی ہیں۔ وہ فرانس کی عوامیت پسند جماعت نیشنل ریلی (سابقہ نیشنل فرنٹ) کی سن 2011 سے قیادت کر رہی ہیں۔ انہوں نے اپنی جماعت سے متعلق عوامی تاثر کو زیادہ اعتدال پسند معتدل بنانے کی کوشش کی ہے۔
تصویر: Reuters/E. Gailard
جرمنی کی فراؤکے پیٹری
اے ایف ڈی کی سابقہ شریک سربراہ فراؤکے پیٹری کی مہاجرین اور مسلمان مخالف پالیسیوں نے سن 2017 کے انتخابات میں دائیں بازو کی اس جرمن عوامیت پسند پارٹی کو وفاقی پارلیمان میں پہنچنے میں مدد دی۔ تاہم الیکشن میں کامیابی کے فوری بعد پیٹری نے اے ایف ڈی کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ اس جماعت میں موجود ان کے حریف اے ایف ڈی کو ایک بنیاد پرست جماعت بنانا چاہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Eventpress
جرمنی ہی کی ایلس وائڈل
فراؤکے پیٹری کے سن 2017 میں اے ایف ڈی سے الگ ہونے کے بعد سے ایلس وائڈل پارٹی کی شریک سربراہ ہیں۔ سن 2013 میں وائڈل کی جانب سے سامنے آنے والی ایک ای میل میں انہوں نے کہا تھا کہ جرمنی غیر ملکیوں بالخصوص عرب باشندوں کی ثقافتی یلغار کے تلے دبا ہوا ہے۔ وائڈل کی جماعت ہم جنس پرستوں کی آپس میں شادیوں کے خلاف ہے لیکن وائڈل ذاتی طور پر ایسے ہی ایک رشتے میں بندھی ہوئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka
پولینڈ کی بیاٹا شیڈُوؤ
یہ خاتون پولینڈ کی نائب وزیر اعظم اور رائٹ وِنگ پاپولسٹ پارٹی ’لاء اینڈ جسٹس‘ کی نائب سربراہ ہیں۔ اس جماعت کو پولستانی پارلیمان میں اکثریت حاصل ہے۔ یہ جماعت یورپی یونین کی جانب سے مہاجرین کی پوری یونین میں منصفانہ لیکن کوٹے کی بنیاد پر تقسیم کی پالیسی کی شدید مخالف ہے۔
تصویر: Getty Images
ناروے کی سِیو ژینسن
سِیو ژینسن ناروے کی سیاسی جماعت ’پروگریس پارٹی‘ کی سربراہ ہیں، یہ جماعت مرکز کی جانب جھکاؤ رکھنے والی مخلوط ملکی حکومت میں بھی شامل ہے۔ ژینسن کھل کر اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں اور انہوں نے اسرائیل میں ناروے کا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اٹلی کی جورجیا میلونی
نیشنل کنزرویٹو برادرز آف اٹلی نامی پارٹی کی شریک بانی اور رہنما جورجیا میلونی انتہائی دائیں بازو کی سیاست کے حوالے سے وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے پندرہ برس کی عمر میں اٹلی کے نئے فاشسٹوں کی سماجی تحریک کے یوتھ ونگ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ وہ سن 2008 سے سن 2011 تک نوجوانوں کے امور کی وزیر بھی رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ڈنمارک کی پِیا کیئیرسگارد
پِیا کیئیرسگارد انتہائی دائیں باز وکی ڈینش پیپلز پارٹی کی شریک بانی ہیں۔ انہوں نے سن 1995 سے لےکر سن 2012 تک اس پارٹی کی قیادت کی۔ وہ مہاجرین مخالف سوچ کی حامل ہیں اور متنوع ثقافتوں کے خلاف اپنے شدید نوعیت کے نظریات کے باعث بھی جانی جاتی ہیں۔ ان کا بنیادی سیاسی جھکاؤ ڈنمارک میں مہاجرین کی آمد پوری طرح روک دینے کی طرف ہے۔