1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جبری لاپتہ افرادکی بازیابی: کیا یہ مسئلہ کبھی حل بھی ہو گا؟

عبدالستار، اسلام آباد
3 اکتوبر 2022

پاکستان میں جبری طور پر لاپتہ ہو جانے والے بہت سے شہریوں میں سے چند کی ملکی عدالتوں کی طرف سے مداخلت کے نتیجے میں حالیہ واپسی کے بعد سینکڑوں گھرانوں کو امید ہو گئی ہے کہ ان کے پیارے بھی کبھی نہ کبھی لوٹ ہی آئیں گے۔

Pakistan | Protest - Vermisste Familienmitglieder
تصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیر تین اکتوبر کے روز ایک اور گمشدہ  فرد کی پیشی نےکئی حلقوں میں یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ آیا عدالتیں، سیاسی جماعتیں اور پارلیمنٹ گمشدہ افراد کی برآمدگی میں کوئی کردار ادا کرسکتی ہیں یا نہیں۔ واضح رہے کہ اسلام آباد کے ایک شہری نے اپنے بیٹے منیب اکرم کی گمشدگی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔ منیب کو انیس اگست کو اس کے گھر سے اٹھایا گیا تھا۔

سب دیکھیں پر نظر نہ آئیں نامعلوم افراد

عدالت نے تیس ستمبر کو حکم دیا تھا کہ منیب کو تین اکتوبر کو عدالت میں پیش کیا جائے بصورت دیگر متعلقہ ادارے کے افسران کا طلب کیا جائے گا۔ منیب نے عدالت کو بتایا کہ نا معلوم افراد نے اس کو کچھ گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد چھوڑ دیا تھا، جس کے بعد وہ اپنے دوست کے گاؤں میں چالیس دن رہا اور خوف کے مارے گھر والوں کو اطلاع نہیں دی۔

چودہ  ستمبر کو ایک اور شخص حمزہ کی برآمدگی بھی عدالتی مداخلت پر ہوئی تھی۔

پاکستانی سپریم کورٹ سمیت ماتحت عدالتوں میں لاپتہ افراد کے سینکٹروں مقدمات زیر سماعت ہیںتصویر: Anjum Naveed/AP Photo//picture alliance

مداخلت کارگر ہو سکتی ہے

 کئی ناقدین کا خیال ہے کہ اگر تمام اعلی عدالتیں متحرک انداز میں مداخلت کریں، تو گمشدہ افراد کو کو برآمد کیا جا سکتا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے وائس چیئرمین اسد بٹ کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں اور عدالتیں یہ فیصلہ کر لیں کہ انہیں گم شدہ افراد کو ہر صورت میں برآمد کروانا ہے، تو یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' عدالتوں کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں۔ وہ وفاقی سیکرٹریوں اور دوسرے متعلقہ حکام کے افسران کی باز پرس کر سکتی ہیں اور ان کو سزا بھی دے سکتی ہیں۔ اسی طرح پارلیمنٹ کی مختلف کمیٹیاں بھی وزارت داخلہ اور دوسری متعلقہ وزارتوں کے افسران کوطلب کر سکتی ہیں۔''

’لاپتہ افراد‘ ایک طلسمی کھیل

سزا و جزا کا نفاذ

اسد بٹ کے مطابق تاہم جب تک عدالتیں سزا اور جزا کے قانون کو موثر انداز میں نافذ نہیں کریں گی، اس وقت تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ''جس نے بھی کسی شخص کو اٹھا کر غیر قانونی حراست میں رکھا، اسے قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔''

لاپتہ افراد کے لواحقین کا کہنا ہے کہ سیاستدان اقتدار میں آنے کے بعد لاپتہ افراد کے معاملے کو نظر انداز کر دیتے ہیںتصویر: Arshad Butt/AP/dpa/picture alliance

سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی

اسد بٹ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے سے پہلے اس مسئلے میں دلچسپی لیتی ہیں لیکن جیسے ہی وہ اقتدار میں آتی ہیں تو وہ اس مسئلے کو بھول جاتی ہیں۔ ''مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آنے سے پہلے اس مسئلہ میں دلچسپی لیتی ہیں، لیکن جب یہ اقتدار میں آتے ہیں، تو ایجنسیوں کی بولیاں بولنا شروع کر دیتے ہیں۔''

پاکستان جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دے، ایمنسٹی کا مطالبہ

عدالتی اختیارات کی حد

تاہم کچھ ناقدین کے خیال میں عدالتیں اتنی طاقت ور نہیں ہیں جتنا کہ انہیں سمجھا جاتا ہے۔ ڈیفینس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا ہے کہ اگر عدالتیں پورے اخلاص کے ساتھ اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کریں، تو اس مسئلے کا کسی حد تک حل نکالا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حالیہ دنوں میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس مسئلے پر بڑا متحرک کردار ادا کیا ہے۔  اس نے متعلقہ اداروں کو اس حوالے سے خبردار کیا اور ایک کیمٹی بنانے کا حکم دیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ لوگ برآمد ہوئے۔''

تاہم آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا تھا کہ عدالتی اختیارات کی حد بھی ہے اور بعض معاملات میں یہ مداخلت منفی اثر ڈالتی ہے۔ ''سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے دور میں جب انہوں نے اس مسئلہ کو بہت متحرک انداز میں اٹھایا، تو گمشدہ افراد کے گھرانوں کے لئے مسائل کھڑے ہوئے۔ عدالتی اختیارات کی بھی ایک حد ہے۔ وہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ اور سیاست دانوں کو طلب کر سکتی ہیں لیکن وہ طاقت ور لوگوں کو طلب نہیں کر سکتیں۔''

لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے مسائل اجاگر کرنے کے لیے ملک کے تمام بڑے شہروں میں احتجاجی کیمپ لگاتے آئے ہیںتصویر: Faridullah Khan/DW

گمشدہ افراد کی فہرست

 پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ گمشدہ افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن آمنہ مسعود جنجوعہ اس بات کی تردید کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی تنظیم کی اپنی تحقیق بتاتی ہے کہ تقریباﹰ تین ہزار کے قریب گمشدہ افراد تھے۔ ''جس میں سے ساڑھے نو سو افراد کا سراغ مل گیا ہے جبکہ دو ہزار کے قریب افراد اب بھی غائب ہیں۔ جن میں پہلے نمبر پر پنجاب، دوسرے پر کے پی کے، تیسرے پر سندھ اور چوتھے پر بلوچستان ہے۔''

مریم بلاول نے کوئی رابطہ نہیں کیا

واضح رہے کہ گمشدہ افراد کے معاملے پر نون لیگ نے اس وقت شور مچایا تھا جب وہ حزب اختلاف میں تھی۔ پی پی پی نے بھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا تھا لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد سیاسی جماعتیں اس مسئلے کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔ آمنہ مسعود جنجوعہ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اقتدار میں آنے کے بعد نہ ہی مریم نواز شریف نے اور نہ بلاول بھٹو زرداری نے ان کی تنظیم یا گمشدہ افراد کے گھرانوں سے کوئی رابطہ کیا۔

ن لیگ جبری گشمدگی ختم کرنا چاہتی ہے

نون لیگ کا دعویٰ ہے کہ مریم سیاسی مصروفیات کی بنا پر گمشدہ افراد کے گھرانوں سے نہیں مل سکیں لیکن یہ کہ ن لیگ جبری گمشدگی کے سخت خلاف ہے اور اسے ختم کرنے کے لئے کام کررہی ہے۔ اس حوالے سے ن لیگ کے ایک رہنما اور سابق گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا نے  ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' وزیراعظم شہباز شریف اس حوالے سے پوری کوشش کر رہے ہیں اور نون لیگ ایک ایسے جمہوری پاکستان پر یقین رکھتی ہےجہاں قانون کی حکمرانی ہو اور انسانی حقوق کی پاسداری ہے۔''

اقبال ظفر جھگڑا کے مطابق حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ '' اور اس نے اس حوالے سے کمیٹی بھی قائم کی ہے، جو اس کو حل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ تاہم اس میں کچھ وقت لگے گا۔''

 

صوبہ سندھ کے ڈيڑھ سو سے زائد لاپتہ سياسی کارکن کہاں ہيں؟

03:39

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں