'جبری گمشدگیوں کے معاملے پر ایکشن لینے کی ضرورت ہے‘
8 نومبر 2018پاکستان کے انگریزی اخبار ’دا نیوز‘ میں شیریں مزاری کے شائع ہونے والے مضمون میں وہ لکھتی ہیں کہ مجرموں کو گرفتار کیا جانا چاہیے اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جانا چاہیے۔ پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے قوانین بھی ہیں اور فوجی عدالتیں بھی۔ مزاری کی رائے میں پاکستان میں کئی خاندان ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے اپنے پیاروں کی واپسی کی آس میں شدید کرب کا شکار ہیں۔ پاکستان کی وزیر قانون کا کہنا ہے کہ ان کی قیادت میں وزارت انسانی حقوق کی جانب سے ایک چار نکاتی تجویز پیش کی گئی ہے۔ وہ لکھتی ہیں، ’’ہمارے ملک کی سلامتی اولین ہے لیکن سکیورٹی کا یہ بھی مطلب ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنائے۔‘‘
پاکستان کی وزیر برائے انسانی حقوق نے اپنے مضمون میں یہ بھی لکھا کہ پاکستان کو بہت سے معاملات ميں قانون سازی کی ضرورت ہے، نہ صرف اس لیے کہ پاکستان کا آئین انسانی حقوق پر زور دیتا ہے بلکہ اس لیے بھی کیوں کہ پاکستان نے بہت سے بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کیے ہوئے ہیں اور ملک کو ان قوانین کے مطابق قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔
’’آسیہ کی رہائی کےفیصلے سےانسانی حقوق کے تحفظ کی راہ ہموار‘‘
مزاری بتاتی ہیں کہ ایک ماہ قبل معذور افراد کے حقوق، تشدد اور طلباء کی مار پیٹ کے خلاف بلوں کے مسودے تیار کر لیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ وزارت کی جانب سے سول سوسائٹی کی مدد کے ساتھ ’زینب الرٹ‘ بل بھی تیار کر لیا گیا ہے۔
مزاری نے اپنے کالم میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق بات کی۔ پاکستان کی وزیر قانون کہتی ہیں کہ پاکستان میں انسانی حقوق کا معاملہ کافی عرصے سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ نئی حکومت کے سو دن مکمل ہونے کو ہیں اور ان کی وزارت نے ایک اچھا آغاز کیا ہے۔ مزاری لکھتی ہیں کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال بارودی سرنگوں کے میدان کی طرح ہے اور اب اسے بہت احتیاط سے صاف کرنا ہوگا۔