1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'جب آقا ہار گئے تو غلام کیا جنگ لڑیں گے' :طالبان

17 جون 2021

غیر ملکی افواج کے انخلاء اور امریکی فضائی تعاون سے جلد ہی محروم ہو جانے کے نتیجے میں افغان حکومتی فورسز کی ناکامی کا خدشہ بڑھ گیا ہے-

Afghanistan | Bildergalerie | Truppenabzug
تصویر: NOORULLAH SHIRZADA/AFP/Getty Images

غیر ملکی افواج کے انخلاء اور امریکی فضائی تعاون سے جلد ہی محروم ہو جانے کے نتیجے میں افغان حکومتی فورسز کی ناکامی کا خدشہ بڑھ گیا ہے جبکہ طالبان کمانڈر ملک پر جلد ہی مکمل کنٹرول کر لینے اور اپنے نظریے کے مطابق اسلامی ریاست دوبارہ قائم کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔

ایک جانب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان غیر معمولی امن مذاکرات بدستور جاری ہیں تو دوسری طرف پورے افغانستان میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ عسکریت پسندوں کا دعوی ہے کہ امریکی افواج کے مئی میں حتمی انخلا کے آغاز کے بعد سے اب تک انہوں نے تقریباً تیس اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔

سپلائی لائن میں وسعت کے ساتھ افغان فورسز کو حالیہ ہفتوں کے دوران طالبان جنگجووں نے گھیرے میں لے لیا ہے۔ جس کی وجہ سے افغان فوج کو فوجی لحاظ سے اہمیت کی حامل کئی دیہی اضلاع میں حکمت عملی کے تحت پسپائی اختیار کرنی پڑی ہے۔

تصویر: Haroon Sabawoon/AA/picture alliance

’افغان فورس پانچ دن بھی نہیں ٹک پائے گی‘

تشدد زدہ غزنی صوبے کے ایک طالبان کمانڈر ملّا مصباح نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا”مغرور امریکیوں کا خیال تھا کہ وہ دھرتی سے طالبان کا نام و نشان مٹا دیں گے۔ لیکن طالبان نے امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کو شکست دے دی اور اب جب کہ وہ افغانستان چھوڑ کر جا رہے ہیں تو انشااللہ اس ملک میں ایک اسلامی حکومت قائم ہو گی۔"

ملّا مصباح، جو خود کو غزنی میں عوامی صحت کا ایک عہدیدار قرار دیتے ہیں، نے کہا”جب امریکی یہاں سے چلے جائیں گے تو وہ (حکومتی فورسز) پانچ دن بھی ٹک نہیں پائیں گی۔"

انہوں نے طالبان کی طرف سے ریڈیو پر جاری کیے جانے والے احکامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا”جب آقاوں کو شکست ہو چکی ہے تو غلام اسلامی امارت کے خلاف جنگ نہیں کر سکتے۔"

انہوں نے اے ایف پی کے نمائندے کو اندار ضلع میں طالبان کے ذریعہ حال ہی میں قبضے میں لیے گئے ایک ہسپتال کا دورہ بھی کرایا۔ اس ہسپتال کی دیواروں پر فائرنگ سے ہونے والے سوراخ نمایاں تھے۔

طالبان اب تقریباً ہر صوبے میں موجود ہیں اور متعدد بڑے شہروں کا محاصرہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہی حکمت عملی سن 1990کے عشرے کے وسط میں بھی اپنائی تھی جب انہوں نے افغانستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا حتی کہ امریکا نے وہاں کارروائی کر کے انہیں اقتدار سے بے دخل کردیا۔

طالبان نے حالیہ ہفتوں کے دور ان غزنی کے دو اہم اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ اہم صوبہ طالبان کے سابقہ مضبوط گڑھ قندھار کو ایک شاہراہ کے ذریعہ دارالحکومت کابل سے ملاتا ہے۔

تصویر: Hussein Sayed/AP/dp/picture alliance

’افغان جلد ہی مکمل آزادی کا لطف اٹھائیں گے‘

طالبان کی فوجی کامیابیوں نے ان خدشات کو تقویت فراہم کی ہے کہ امریکی اور ان کے دیگر اتحادیوں کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد وہ ملک کے تمام شہروں پر بھر پور حملے کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

افغان فوجی حکام یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ طالبان کے حملوں کو ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ ان کے حریف کے پاس بھاری ہتھیاروں کی کمی ہے اور افغان فورسز فضائی حملوں کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ لیکن گیارہ ستمبر تک امریکی افواج کے مکمل انخلاء کے بعد طالبان عسکریت پسندوں کو اپنی کامیابی کا پورا یقین ہے۔

قرا باغ ضلع کے طالبان کمانڈر قاری حفیظ اللہ حمدان کا کہنا تھا”آپ کو پتہ ہے اور ہر ایک کو یہ بات معلوم ہے کہ امریکی اور ان کے نیٹو اتحادی اور کابل انتظامیہ کو مکمل شکست ہو  چکی ہے۔"  حمدان نے مزید کہا ”جلد ہی افغان مسرت اور مکمل آزادی کا لطف اٹھائیں گے۔"

افغانستان وزارت دفاع نے اس بیان پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔

تصویر: Sherinagha Azizi

تشدد میں اضافے کا خدشہ

دریں اثنا افغانستان کے لیے یورپی یونین کے خصوصی نمائندے تھامس نکلسن نے افغانستان میں کشیدگی میں اضافے سے متنبہ کرتے ہوئے دوحہ مذاکرات میں جلد از جلد پیش رفت کی ضرورت پر زور دیا۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق نکلسن کا کہنا تھا ”آنے والے چند ہفتوں اور مہینوں میں ہم بد قسمتی سے کشیدگی میں اضافہ دیکھ سکتے ہیں۔"  انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں نہ صرف کشیدگی میں اضافہ ہوگا کیونکہ دونوں فریقین جنگ کے میدان میں اپنی طاقت آزما رہے ہیں، بلکہ دیگر 'عناصر‘کی شمولیت کی وجہ سے تنازع مزید کشیدہ اور پیچیدہ ہو جائے گا۔ اس سے نہ صرف میدان میں بلکہ مذاکرات میں بھی پیچیدگیوں میں اضافہ ہو گا۔

ج ا/ ص ز (اے ایف پی، روئٹرز)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں