جب بہتر زندگی کے خواب لے گئے غلامی تک
6 اگست 2015جنوبی بھارت میں اپنے دو کمروں کے مکان سے ناریل کے باغات کا نظارہ کرتی کویتا نے ایک دہائی تک اس علاقے کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو پھلتے پھولتے دیکھا ہے۔ مگر اس صنعت کی ترقی کے پیچھے کویتا جیسی خواتین کی ان تھک محنت کی ایک طویل اور تکلیف دہ کہانی چھپی ہوئی ہے۔
یہ خواتین یہاں تک کیسے پہنچیں؟ تامل ناڈو کے غریب ترین علاقوں میں ایسے ایجنٹس کی کمی نہیں جو نو عمر لڑکیوں کو خوش حالی کے خواب دکھا کر کپڑے کی صنعت تک پہنچاتے ہیں۔ ان دیہات میں غربت اتنی زیادہ ہے کہ ایک درمیانے درجے کی آمدنی کا ذریعہ بھی ان خواتین کے لیے جنت سے کم نہیں۔ لیکن ان علاقوں میں غربت اور بدحالی کی زندگی تو ہے ’’بانڈڈ لیبر‘‘ یا غلامی نہیں۔
واضح رہے کہ ٹیسکسٹائل انڈسٹری بھارت کی اہم ترین صنعتوں میں سے ایک ہے۔ یہاں کثیر تعداد میں لوگوں کا روزگار لگا ہوا ہے اور یہاں تیار کی جانے والی اشیاء دنیا بھر میں برآمد کی جاتی ہیں۔
ملک کے دور دراز علاقوں سے نکل کر خواتین کا اس صنعت میں کام کرنا، خود مختارانہ طور پر ہوسٹلوں میں رہنا، اور ایک بھرپور انڈسٹری کا ریڑھ کی ہڈی ہونا خواتین کی ترقی کا ایک اہم سنگ میل ہونا چاہیے، تاہم ایسا ہے نہیں۔
تامل ناڈو کی اس صنعت کی سابقہ ملازمائیں ’بونڈڈ لیبر‘ اور مردوں کی بالادستی کی کہانی سناتی ہیں۔
تئیس سالہ کویتا کا کہنا ہے، ’’میں اس صنعت میں کام کرنے کی خواہش مند خواتین کو کہتی ہوں کہ وہ اس سے اجتناب کریں۔ جو وعدے ایجنٹ کرتے ہیں، حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔‘‘
وہ مزید کہتی ہیں: ’’ایک برس تک مجھے ہوسٹل کے کمپاؤنڈ سے باہر جانے تک کی اجازت نہیں تھی۔ مجھے دو شفٹس کرنا پڑتی تھیں۔ میں وہاں سے یہ جھوٹ بول کر باہر نکلی کہ میری چچی کا انتقال ہو گیا ہے اور مجھے ان کے انتِم سنسکار میں شرکت کرنا ہے۔ میں دوبارہ لوٹ کر نہیں گئی۔‘‘
کویتا صرف تیرہ برس کی تھی جب اسے اور اس جیسی کئی لڑکیوں کو تامل ناڈو کی ملز کی جانب سے پیش کی گئی ’’شادی کی اسکیم‘‘ کے تحت ٹیکسٹائل انڈسٹری میں ملازمت دی گئی۔ یہ اسکیم کم اجرت پر مزدوری کروانے کی غرض سے پیش کی گئی تھیں۔ اس میں زیادہ تر خواتین، خصوصاً دلت یا نچلی زات کی ہندو خواتین کو روزگار فراہم کیا گیا تھا۔
غیر سرکاری تنظیموں ’’فریڈم فنڈ‘‘ اور ’’سی اینڈ اے‘‘ کی جانب سے تیار کی گئی سن دو ہزار چودہ میں شایع کی گئی ایک رپورٹ میں اس عمل کو ’’بونڈڈ لیبر‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ ان تنظیموں کے مطابق ایک لاکھ خواتین کا اس طریقے سے استحصال کیا جا رہا ہے۔