جرمنی پوٹن کے خلاف ثبوت اکٹھے کر رہا ہے، جرمن وزیر انصاف
10 جون 2022
جرمن وزیر انصاف مارکو بشمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جرمنی صدر پوٹن اور ان کے ساتھیوں کے خلاف جنگی جرائم کے ثبوت جمع کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روسی جارحیت کے شواہد جمع کرنے کے لیے چھان بین شروع کر دی گئی ہے۔
وفاقی جرمن وزیر انصاف مارکو بشمان نے کہا کہ جرمنی اکٹھا کیے جانے والے شواہد ضرورت پڑنے پر دیگر ممالک اور اداروں کو بھی دینے کو تیار ہے۔تصویر: DW
اشتہار
وفاقی جرمن وزیر انصاف مارکو بشمان نے ڈی ڈبلیو کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ بے شک یوکرین پر روسی فوجی حملے کے ثبوت کافی حد تک جمع کر لیے گئے ہیں، تاہم روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے خلاف کسی بھی عدالتی کارروائی کے حوالے سے برلن کے ہاتھ اب تک بندھے ہوئے ہیں، ''جرمن نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو ہم ولادیمیر پوٹن کے خلاف اس وقت تک کچھ نہیں کر سکتے جب تک وہ سربراہ مملکت کے عہدے پر فائز ہیں۔‘‘
بشمان نے لکسمبرگ میں یورپی یونین کے وزرائے انصاف کے اجلاس کے موقع پر ڈی ڈبلیو کی مارینا شٹراؤس سے بات چیت کرتے ہوئے مزید کہا کہ موجودہ حالات میں جرمنی دیگر ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے ان افراد کو عدالت تک لانے کی کوشش میں ہے، جو جنگی جرائم میں تعاون یا سہولت کاری کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
یوکرین: تباہی اور شکستہ دلی کے مناظر
روسی فوج کی طرف سے یوکرین پر تقریباﹰ چار ہفتوں سے حملے جاری ہیں۔ جنگ کی صورتحال میں شہریوں کی پریشانیاں مزید بڑھتی جارہی ہے۔ بھوک، بیماری اور غربت انسانی بحران کو جنم دے رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جتنی طویل جنگ اتنی ہی زیادہ مشکلات
ایک عمررسیدہ خاتون اپنے تباہ شدہ گھر میں: یوکرین کے شہری جنگ کے سنگین اثرات محسوس کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق تقریباﹰ اگر صورتحال اگلے بارہ ماہ تک ایسے جاری رہی تو نوے فیصد ملکی آبادی غربت کا شکار ہو جائے گی۔ جنگی حالات یوکرینی معیشت کو دو عشرے پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔
تصویر: Thomas Peter/REUTERS
بھوک کے ہاتھوں مجبور
یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف میں بھوک سے مجبور عوام نے ایک سپرمارکیٹ لوٹ لی۔ خارکیف، چیرنیہیف، سومی، اور اوچترکا جیسے شمالی مشرقی اور مشرقی شہروں کی صورتحال بہت خراب ہے۔ مقامی رہائشیوں کو مسلسل داغے جانے والے روسی میزائلوں اور فضائی بمباری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: Andrea Carrubba/AA/picture alliance
تباہی میں مدد کی پیشکش
دارالحکومت کییف میں ایک فائر فائٹر روسی حملوں سے تباہ شدہ عمارت کی رہائشی کو تسلی دے رہی ہے۔ اس امدادی کارکن کو کئی یوکرینی شہریوں کے ایسے غم بانٹنے پڑتے ہیں۔ تاہم روس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف مسلح افواج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ رہائشی مقامات کی تباہی سمیت روزانہ شہریوں کی اموات ہو رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جنگ کی تاریکی میں جنم
یہ تصویر ایک ماں اور اس کے نوزائیدہ بچے کی ہے، جس کی پیدائش خارکیف میں واقع ایک عمارت کی بیسمینٹ میں بنائے گئے عارضی میٹرنٹی سنٹر میں ہوئی ہے۔ کئی ہسپتال روسی فوج کی بمباری کا نشانہ بن چکے ہیں، جس میں ماریوپول کا ایک میٹرنٹی ہسپتال بھی شامل ہے۔
تصویر: Vitaliy Gnidyi/REUTERS
مایوسی کے سائے
یوکرین کے جنوب مشرقی شہر ماریوپول کے ہسپتال بھر چکے ہیں، ایسے میں گولہ باری سے زخمی ہونے والے افراد کا علاج ہسپتال کے آنگن میں ہی کیا جارہا ہے۔ کئی دنوں سے روس کے زیر قبضہ علاقوں میں بحرانی صورتحال ہے۔ یوکرینی حکام محصور شدہ شہروں میں لوگوں تک خوراک اور ادویات پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: Evgeniy Maloletka/AP/dpa/picture alliance
خوراک کی ضرورت
علیحدگی پسندوں کے زیرانتظام ڈونیسک خطے کے شہریوں کو انسانی امداد فراہم کی گئی ہے۔ مشرقی یوکرین کے علاقے لوہانسک اور ڈونیسک میں شدید لڑائی جاری ہے۔ روسی وزارت دفاع اور علیحدگی پسندوں کی اطلاعات کے مطابق انہوں نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
تصویر: ALEXANDER ERMOCHENKO/REUTERS
خاموش ماتم
مغربی شہر لویو میں ہلاک ہونے والے یوکرینی فوجیوں کے لواحقین اپنے پیاروں کے جانے پر افسردہ ہیں۔ اسی طرح کئی شہری بھی موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے مطابق 24 فروری سے شروع ہونے والے روسی حملوں سے اب تک تقریباﹰ 724 شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہے، جس میں 42 بچے بھی شامل ہیں۔
کییف میں ایک دکان پر روسی گولہ باری کے بعد یہ ملازم ملبہ صاف کر رہا ہے۔ یہ اسٹور کب دوبارہ کھل سکے گا؟ معمول کی زندگی کی واپسی کب ہوگی؟ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔
وفاقی وزیر انصاف کے بقول، ''جرمنی نے اپنے طور پر باقاعدہ چھان بین شروع کر دی ہے۔ ہم منظم انداز میں شواہد اکٹھے کر رہے ہیں اور انہیں اپنے پاس محفوظ کرتے جا رہے ہیں۔ اس طرح بعد میں ان شواہد کو فوجداری مقدمات میں مجرموں کے خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔‘‘
مارکو بشمان نے مزید بتایا کہ جب ان مجرموں کو، جن میں اعلیٰ فوجی افسران بھی شامل ہیں، گرفتار کیا جائے گا اور ان کے خلاف شواہد موجود ہوں گے، تو انہیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکے گا۔
وفاقی جرمن وزیر انصاف مارکو بشمان نے اس دوران واضح کیا کہ جرمنی اکٹھا کیے جانے والے شواہد ضرورت پڑنے پر دیگر ممالک اور اداروں کو بھی دینے کو تیار ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ برلن یہ تمام شواہد دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت کے حوالے کرنے کا خواہش مند بھی ہے۔
کییف میں روسی دوستی کی یادگار مسمار
روس کی یوکرین پر بے رحمانہ فوجی چڑھائی کو دو ماہ ہو چکے ہیں۔ کییف میں سوویت دور کی یادگار کو توڑ دیا گیا ہے۔ یہ روسی یوکرینی دوستی کی یادگار تھی۔
تصویر: Gleb Garanich/REUTERS
پھیلتی ہوئی دراڑیں
اس یادگار کا مقام دراصل کییف شہر کے قیام کی پندرہ سوویں سالگرہ کی جگہ بھی ہے۔ اسی جگہ کو روسی اور یوکرینی باشندوں کی دوستی کا مقام بھی قرار دیا جاتا ہے۔ عوامی دوستی کی محراب میں سن 2018 میں روس اور کریمیا میں یوکرینی شہریوں کی قید کے بعد اس عمل کے خلاف سرگرم یوکرینی کارکنوں نے توڑ پھوڑ بھی کی تھی، جن پر بعد میں رنگ پھیر دیا گیا تھا۔
تصویر: Maxym Marusenko/NurPhoto/picture alliance
’بھائی بھائیوں کو قتل نہیں کرتے‘
کییف کے میئر ویٹالی کلِچکو نے صحافیوں کو بتایا کہ لوگوں نے شہر سے روسی نشانات کو ہٹانا شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے روسی حملے کے تناظر میں کہا، ’’ اپنے بھائیوں کو قتل نہیں کرتے، اپنی بہنوں کو ریپ نہیں کرتے، اپنے دوستوں کے ملک کو تباہ نہیں کرتے، لیکن اس ضابطے کا خیال نہیں رکھا گیا، اسی لیے آج لوگوں نے اس یادگار کو گرا دیا۔‘‘
تصویر: Sergei Chuzavkov/SOPA Images via ZUMA Press Wire/picture alliance
دوستی کے سبھی تعلق ٹوٹ رہے ہیں؟
یادگاری مجسمہ اب گرایا جا چکا ہے۔ چھ میٹر بلند، تانبے کے اس اسکلپچر میں ایک روسی اور ایک یوکرینی کارکن اپنے ہاتھوں میں سوویت دوستی کا ربن تھامے ہوئے کھڑے تھے اور یہ روس اور یوکرین کے ’دوبارہ اتحاد‘ کی یادگار تھا۔
تصویر: Maxym Marusenko/NurPhoto/picture alliance
یہ وقت دوستی کے لیے مناسب نہیں
سن 1982 میں آرکیٹیکٹ سیرہی مِرہورودسکی نے اس یادگار کا ڈیزائن تیار کیا تھا۔ اب اس چھیاسی سالہ ماہر تعمیرات نے اس یادگار کو گرانا ہی درست عمل قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’اب روس سے دوستی نہیں ہے اور کئی برسوں تک نہیں ہو گی، جب تک پوٹن اور ان کا گروپ اس دنیا میں میں موجود ہیں۔‘‘
تصویر: Gleb Garanich/REUTERS
ٹوٹا ہوا سر
اس یادگار کو گرانے کے دوران دو میں سے ایک مجسمے کا سر ٹوٹ کر گر گیا۔ کییف کے میئر کلِچکو کا کہنا تھا کہ کارکنوں کو اس بڑی یادگار کے مجسموں کو گرانے میں مشکل کا سامنا رہا لیکن آخرکار وہ کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح دشمن اور روسی قابضوں کو بھی اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے گا۔
تصویر: Gleb Garanich/REUTERS
روسی یادگار کے خاتمے پر مسرت کا اظہار
جیسے ہی ایک کرین نے اس یادگار کو اٹھا کر زمین پر رکھا، وہاں جمع سو کے قریب افراد نے یوکرین زندہ باد، ہیروز زندہ باد اور یوکرینی عوام زندہ باد کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ پورے یوکرین میں روسی نشانات اور باقیات کا صفایا جاری ہے۔ سوویت دور کی کئی یادگاریں بھی مسمار کی جا رہی ہیں اور روسی شخصیات کے ناموں والی سڑکوں اور چوراہوں کے نام بھی بدلے جا رہے ہیں۔
تصویر: Sergei Chuzavkov/ZUMAPRESS/picture alliance
اور بھی کئی علامات نشانے پر
کییف میں قریب ساٹھ گلیوں اور مقامات کو نئے نام دیے جا چکے ہیں۔ اس تبدیلی سے کییف کے زیر زمین ریلوے نظام کا ایک اسٹیشن ’لیو ٹالسٹائی‘ بھی متاثر ہوا ہے۔ کچھ کا خیال تھا کہ یہ زیادہ ہو گیا۔ کییف کے ایک شہری ایہور سیرہیوچ نے برطانوی اخبار گارڈین کو بتایا، ’’پوٹن کا کوئی مجسمہ ہوتا تو بات سمجھ میں آتی بھی، لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ دشمنوں اور عالمی شہرت یافتہ ادیب میں تفریق کر سکیں۔‘‘
تصویر: Maxym Marusenko/NurPhoto/picture alliance
7 تصاویر1 | 7
انہوں نے دی ہیگ کی عدالت کی جانب سے اس تناظر میں 'یوروجسٹ‘ کی سربراہی میں ایک تفتیشی ٹیم مقرر کرنےکے فیصلے کا خیر مقدم بھی کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مربوط اقدامات خوش آئند ہیں کیونکہ اس طرح کسی بھی جنگی مجرم کے بچنے کی امید نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔
'شناخت لازمی ہے‘
روس کے اعلیٰ حکومتی اہلکاروں اور امراء کی جائیدادیں ضبط کرنے اور اثاثے منجمد کرنے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں جرمن وزیر انصاف نے کہا کہ اس سلسلے میں واضح ثبوت ناگزیر ہیں، ''ہم کسی کے اثاثے صرف اس بنیاد پر منجمد نہیں کر سکتے کہ وہ امیر ہے اور اس کا تعلق روس سے ہے۔ لیکن اگر اس کے خلاف کسی جنگی جرم میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت موجود ہو تو جرمن قانون کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔‘‘
مارکو بشمان نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا کہ ان کے خیال میں ایک چیز انتہائی اہم ہے اور وہ یہ کہ اس تنازعے میں جرمنی قانون کی حکمرانی والے ملک کے طور پر اپنی شناخت برقرار رکھے، ''یہاں تک کہ مجرموں اور غلط کام کرنے والے افراد کے ساتھ بھی منصفانہ سلوک کیا جانا چاہیے۔ ان کے ساتھ غلط برتاؤ کا مطلب خود اپنی ساکھ خراب کرنا ہو گا۔‘‘