یہ اسی برس پرانی بات ہے، جب فلم 'دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ سنیما گھر میں دکھائی گئی تھی۔ یہ چارلی چیپلن کی یہ پہلی بولتی فلم تھی۔ اسے ہالی وڈ کی پہلی بڑی فلمی تخلیق قرار دیا گیا۔
اشتہار
فلم ‘دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ کو اکتوبر سن 1940 کو نیو یارک سٹی میں ریلیز کیا گیا۔ اس وقت یورپ میں دوسری عالمی جنگ شروع ہو چکی تھی۔ اُس دور کی ہالی وڈ فلم انڈسٹری میں چارلی چیپلن کا شمار بڑے اداکاروں میں ہوتا تھا۔ ان کو فلم میں کاسٹ کرنے پر کئی ناقدین نے حیرت کا اظہار کیا تھا، کیونکہ چارلی چیپلن کی یہ پہلی بولتی فلم تھی اور اس کا سیاسی موضوع تھا۔ اِس فلم کا مرکزی خیال نازیوں کی نقل اتارنا اور ان پر طنز کرنا تھا۔
ہٹلر اور چیپلن
تاریخ کے یہ دونوں کردار اپریل سن 1889میں پیدا ہوئے تھے۔ ان دونوں کے جسمانی خد و خال بھی مِلتے جُلتے تھے۔ اس فلم کے مصنف ولیم والٹر کروچ تب میونخ میں رہتے تھے اور وہیں انہوں نے پہلی مرتبہ مخصوص مونچھوں کے ساتھ ہٹلر کو بازار میں چلتے ہوئے دیکھا تھا اور ایک دکاندار نے کروچ کو ہٹلر کے بارے میں چند بنیادی معلومات فراہم کی تھیں۔ اُس دور میں چارلی چیپلن کو یہودی بھی قرار دیا گیا حالانکہ وہ اس مذہب سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ انگریز سیاستدان اور فلم ساز ایوور مانٹیگو کا کہنا ہے کہ اداکار چیپلن کی تمام فلمیں یہودیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی عکاس تھیں۔
ہٹلر پر تنقید و طنز
اس فلم میں نیشنل سوشلزم کی نقالی کی گئی اور چیپلن نے بھرپور انداز میں ہٹلر کے کردار کو ادا کیا۔ اپنی پہلی بولتی فلم میں چارلی چیپلن نے ہٹلر کے تقریر اور آواز کے انداز کو جاندار طریقے سے نبھایا اور جرمن زبان کی بھی شاندار ادائیگی کی۔ اس کردار کے حوالے سے اداکار چیپلن کا خود بھی کہنا تھا کہ خود کو اہم سمجھنے کی اداکاری ایک مشکل امر تھا۔ ناقدین کے مطابق فلم 'دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ طنزیہ جملوں، المیے اور انسانی دکھ کا بھرپور امتزاج تھا اور اس کا مرکزی کردار صرف چیپلن ہی ادا کر سکتے تھے۔
چارلی چیپلن زندہ ہے
امریکی سینما کے لیجنڈ مزاحیہ اداکار اور خاموش فلموں کے بادشاہ چارلی چیپلن بھارت میں گجرات کے ایک چھوٹے سے شہر میں آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ یہاں ہر سال اپریل میں ان کی سالگرہ کا جشن منایا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/UPI
چارلی سرکل
سن 1973 سے ہر سال گجراتی شہر آدیپور میں چارلی چیپلن کے مداحوں کی تنظیم، چارلی سرکل، ان کی سالگرہ پر والک کا اہتمام کرتی ہے جس میں مداح ان کا روپ دھارے سڑکوں پر نکلتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
چارلی سرکل کے صدر
اشوک اشوانی چارلی چیپلن سرکل کے صدر ہیں۔ انہوں نے 70 کی دہائی میں ملازمت پر جاتے ہوئے چارلی کی ایک فلم ’گولڈ رش‘ کا پوسٹر دیکھا اور پھر سینما میں جہاں وہ ملازم تھے، تین بار یکے بعد دیگرے یہ فلم دیکھی جس پر انہیں ملازمت سے برخاست بھی کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
سالگرہ کا کیک
ابتدا میں اشوانی اپنے ہیرو چارلی کی سالگرہ تنہا ہی منایا کرتے تھے ۔پھر دیگر لوگوں نے بھی ان کے ساتھ کیک کاٹنے کی تقریب میں شرکت شروع کر دی اور یوں یہ موقع ایک جشن کا روپ دھار گیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
چارلی کا روپ
ایک چھڑی، ڈھیلی پتلون، تنگ ویسٹ کوٹ اور موچھیں۔ چارلی نے یہ ٹریڈ مارک حلیہ 1914ء میں اپنے لیے منتخب کیا تھا۔ جس کو بڑے پیمانے پر کاپی کیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
کم سن مداح
چارلی کے کم سن مداح گو کہ ان کے کرئیر کے بارے میں اتنا نہیں جانتے۔ لیکن ان کے لیے اس پریڈ میں اصل دلچسپی کا باعث اداکار کا دھارے جانے والا روپ ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
پریڈ کا مستقبل
اس برس اس پریڈ میں تین سو لوگ شریک تھے جس کی عمریں دو سے 70 سال تک تھی۔ بہت جلد اشوانی کے 18 سالہ پوتے اس سرکل کے لیے بطور صدر ذمہ داری سنبھالنے والے ہیں۔
تصویر: Getty Images/I. Mukherjee
6 تصاویر1 | 6
چیپلن کی مخالفت
اس فلم میں ہٹلر کا کردار ادا کرنے پر چارلی چیپلن کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس دور میں ہالی وڈ کی فلمیں جرمن سنیما گھروں پر بھی پیش کی جاتی تھیں۔ ہالی وڈ کی فلمی صنعت کے ساتھ وابستہ کئی یہودی العقیدہ افراد اس فلم کی ریلیز کے بعد کے ممکنہ ردعمل اور نتائج پر فکر مند تھے۔ امریکی قدامت پسند سیاسی حلقے بھی تنقیدی سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ اس ناقدانہ سلسلے کو دیکھتے ہوئے چیپلن میں فلم میں اداکاری نہ کرنے کی سوچ پیدا ہو گئی، جب امریکی صدر روزویلٹ کو اس کا پتہ چلا تو انہوں نے چیپلن کو ہدایت کی کہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر وہ یہ کردار ضرور ادا کریں۔
اشتہار
اٹھارہ برس بعد جرمنی میں
نیویارک میں فلم 'دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ کی ریلیز کے بعد ناقدین کی رائے تبدیل ہو گئی اور فلم کو شاندار قرار دیا گیا۔ خود چیپلن کا کہنا تھا کہ اگر انہیں اذیتی مراکز کی تفصیلات کا اندازہ ہو جاتا تو وہ یہ کردار ادا کرنے کی ہمت بھی نہ کرتے۔ اس فلم کو جرمنی میں سن 1958میں ریلیز کیا گیا۔ اس کا جرمن نام 'ڈیئر گروسے ڈکٹاٹور‘ تھا۔
چارلی چپلن کی فلم ’دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ کے 75 سال
چارلی چپلن کی 1940ء کی اس فلم کا موضوع اس دور کے عالمی سیاسی حالات تھے۔ فلم بینوں نے ’دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ کی پذیرائی کی، نازی سوشلسٹوں نے غم و غصے کا اظہار کیا۔ چارلی کا فن اب ایک ضخیم باتصویر کتاب کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
تصویر: Roy Export Company Establishment
75 سال پہلے پریمیئر
چارلی چپلن کی فلم ’دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ آج بھی جرمنی کے نازی سوشلسٹ دور کے پس منظر کے حوالے سے ایک اہم اور انتہائی مزاحیہ فلم تصور کی جاتی ہے۔ چارلی نے طنز و مزاح کا سہارا لیتے ہوئے انتہائی مؤثر انداز میں ہٹلر کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا تھا۔
تصویر: Roy Export Company Establishment
جانوروں کو کرتب سکھانے والا
چارلی چپلن کے فن کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ’دی چارلی چپلن آرکائیو‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب شائع ہوئی ہے، جس میں چپلن کے کیریئر کی اہم ترین فلموں میں شمار ہونے والی ’دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے۔ اس کتاب میں چپلن کی نادر و نایاب تصاویر شامل کی گئی ہیں، مثلاً یہ تصویر فلم ’دی سرکس‘ سے لی گئی ہے۔
تصویر: Roy Export Company Establishment
مزاحیہ اور المیہ کردار ساتھ ساتھ
چپلن کے فن کے کئی اسرار و رموز میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ ’دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ کی طرح اپنی ابتدائی دور کی اور بعد کی فلموں میں بھی اپنے کردار کے طربیہ اور المیہ پہلوؤں کو ایک دوسرے میں مدغم کر دیتے تھے۔ بے انتہا کامیابی سے ہمکنار ہونے والی فلم ’دی گولڈ رَش‘ میں بظاہر ایک شخص بھوک سے مر رہا ہوتا ہے لیکن پھر بھی اس فلم میں فلم بینوں کے لیے ہنسی کا بہت سامان موجود ہے۔
تصویر: Roy Export Company Establishment
ایک عالمی فنکار
تازہ تازہ شائع ہونے والی کتاب ’دی چارلی چپلن آرکائیو‘ سے پتہ چلتا ہے کہ چارلی چپلن کی اُن فلموں کی تیاری کے دوران کتنی محنت کی گئی ہوتی تھی، جو بعد میں بہت آسانی کے ساتھ اور بے ساختہ بنی ہوئی لگتی تھیں۔ اس کتاب میں چپلن کی نجی زندگی پر بھی تفصیلات موجود ہیں۔ اس تصویر میں چارلی چپلن اپنی ساتھی اداکارہ پاؤلیٹ گوڈارڈ کے ساتھ نظر آ رہے ہیں، جس کے ساتھ بعد میں چپلن نے شادی کر لی۔
تصویر: Roy Export Company Establishment
بیس ویں صدی کے با اثر ترین فنکاروں میں سے ایک
چارلی چپلن کو دنیا بھر میں بے انتہا مقبولیت حاصل ہوئی۔ فلموں کے ساتھ ساتھ اُس کی تصاویر، کتابیں اور کارٹون بھی لوگوں میں بہت مقبول ہوئے۔ چارلی چپلن کا کردار ’ٹریمپ‘ بیس ویں صدی کی ثقافتی تاریخ کے مرکزی کرداروں میں سے ایک ہے۔
تصویر: Roy Export Company Establishment
امارت اور غربت
’ٹریمپ‘ یا ایک آوارہ اور آزاد منش انسان کا کردار شروع ہی سے چارلی چپلن کے پسندیدہ ترین فلمی کرداروں میں سے ایک تھا۔ چپلن نے ایک بار کہا تھا:’’ایک بات میں جانتا ہوں: کہ غربت نے مجھے کچھ سکھایا نہیں بلکہ اس کے برعکس اُس نے میرے تصورات کو توڑ مروڑ اور بگاڑ دیا اور میرے سامنے زندگی کا ایک غلط تصور پیش کیا۔‘‘ چپلن فلموں کے ذریعے ہرگز یہ ثابت نہیں کرنا چاہتے تھے کہ غربت یا سادگی کوئی بہت اچھی چیز ہیں۔
تصویر: Roy Export Company Establishment
خاموش فلموں سے بولتی فلموں تک
چارلی چپلن نے اپنے کیریئر کا آغاز خاموش فلموں سے کیا تھا۔ اُس دور میں وہ بلاشبہ دنیا کے مشہور ترین فنکار تھے۔ بولتی فلموں کا دور اُن کے لیے مشکلات اور مسائل لے کر آیا۔ ’دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ میں الفاظ اور آواز کا انتخاب بلاشبہ بہت عمدہ تھا لیکن زیادہ تر بولتی فلموں میں اُنہیں یہ کامایبی نہ مل سکی۔ یہ تصویر بعد میں تنقید کا نشانہ بننے والی فلم ’موسیو وَیردُو‘ کی شوٹنگ کے دوران اُتاری گئی۔
تصویر: Roy Export Company Establishment
حسن کی تلاش میں
چپلن نے اکثر اس بات پر زور دیا کہ دراصل وہ ہمیشہ حسن کی تلاش میں رہے۔ اسی لیے اس نئی کتاب کے پبلشر نے اپنے دیپباچے کو بھی ’حسن کی تلاش میں‘ کا نام دیا ہے۔ ’ٹاشن‘ نامی جرمن اشاعتی ادارے نے یہ کتاب انگریزی زبان میں شائع کی ہے۔ اس کتاب کو 2015ء کی خوبصورت ترین فلمی کتاب قرار دیا جا رہا ہے۔