’جب ڈاکٹر بھی بیمار پڑ جائیں، تو مریض کون دیکھے گا؟‘
شاہ زیب جیلانی
2 اپریل 2020
کورونا کے بحران کے بعد دنیا بھر میں ڈاکٹروں کے حفاظتی لباس اور سامان کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ ایسے میں پاکستان میں بعض ڈاکٹر اپنی مدد آپ کے ساتھ ایک دوسرے کی مدد کو آ رہے ہیں۔
اشتہار
مہنگے نجی ہسپتالوں نے اپنے آرڈر دے رکھے ہیں لیکن ملک کے طول و عرض میں پھیلے سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والے اکثر ڈاکٹر اپنی جیب سے اپنی حفاظت کا بندوبست کرنے پر مجبور ہیں۔
انہیں میں سےایک اسلام آباد کی گائیناکالوجسٹ ڈاکٹر صائمہ زبیر ہیں۔ وہ کوئٹہ کے بولان میڈیکل کالج کی گریجوئیٹ ہیں۔ پچھلے چند ہفتوں سے ان کا دھیان زچہ بچہ کے مسائل سے زیادہ ملک میں کورونا کے باعث میڈیکل کمیونٹی کو درپیش خطرات پر ہے۔
وہ بتاتی ہیں، "بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں ہمارے ساتھی ڈاکٹرز کے پاس کورونا سے بچاؤ کے لیے کوئی حفاظتی لباس اور سامان نہیں۔ وہ مسلسل مجھ سے کہتے آ رہے تھے کہ کچھ کریں۔"
ڈاکٹر صائمہ میڈیکل کمیونٹی میں خاصی متحرک ہیں۔ وہ مسائل کا رونا رونے کیبجائے ان کا حل نکالنے پر یقین رکھتی ہیں۔انہوں نے اپنے ذاتی جاننے والوں اور رضا کاروں کی مدد سے کچھ فون گھمائے اور ڈاکٹرز کی مدد کا راستہ نکال لیا۔
انہوں نے بتایا، "اس وقت ملک بھر میں اکثر طبی عملے کو یہ معلوم نہیں کہ پرسنل پروٹیکشن اکویپمنٹ کہاں سے اور کیسے ملے گا۔ ہم نے اس کا کھوج لگایا اور فیکٹریوں کو آرڈر دے دیا۔"
ڈاکٹر صائمہ نے لاکھوں روپے کی بھاری رقم فی الحال اپنی جیب سے بھر دی، اس امید پر کہ جن ساتھی ڈاکٹرزکے لیے وہ یہ سب کر رہی ہیں وہا آہستہ آہستہ اس کی ادائیگی کردیں گے۔
لیکن پھر مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ لاک ڈاؤن کے دوران پنجاب کی فیکٹریوں اور اسلام آباد سے اٹھایا جانا والے حفاظتی سامان کوئٹہ کیسے پہنچے گا؟ ٹی سی ایس کارگو سروس سے رجوع کیا،لیکن بات نہیں بنی۔ بہرحال انہوں نے پھر کچھ فون گمھائے اور کسی نہ کسی طرح یہ ضروری سامان کوئٹہ کے ڈاکٹروں تک پہنچا۔
میڈیکل کمیونٹی میں بات پھیلی تو انہیں ملک کے طول و عرض سے ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے فون آنا شروع ہوگئے۔ اکثر نے کہا کہ ان کے پاس بھی حکومت کی طرف سے کوئی حفاظتی سامان نہیں پہنچا اور وہ اپنے پیسوں سے اسٹاف کے لیے یہ سامان خریدنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر صائمہ نے بتایا، "مجھے اعلیٰ سرکاری اہلکاروں کے بھی فون آئے کہ پلیز یہ سامان مہیا کرنے میں ہماری مدد کریں۔"
مشکل حالات میں شہری حکومت کی طرف دیکھتے ہیں۔ لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہو گیا۔
اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ پاکستان میں پڑھا لکھا متوسط طبقہ ویسے بھی حکومت سےکوئی خاص توقعات نہیں رکھتا۔ جو کاروبار کرتے ہیں ان کو حکومت پر یہ اعتبار نہیں ہوتاکہ وقت پر ادائیگی ہوگی بھی یا نہیں، اس لیے وہ سرکارکو مال بیچنے سے ہچکچاتے ہیں۔
پاکستان کو پچھلے ہفتے چین کی طرف سے تین کارگو پروازوں کے ذریعے کورونا کی ٹیسٹ کِٹس، ماسک اور دس ہزار حفاظتی لباس ملے۔ نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹنٹ جنرل محمد افضل کے مطابق اگلے ہفتے چھ اپریل تک طبی عملے کے لیے چین سے مزید ایک لاکھ حفاظتی لباس پہنچنے کی توقع ہے۔
لیکن تب تک شاید کافی دیر ہو چکی ہو۔ پاکستان میں حالیہ دنوں میں کوئٹہ، کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں ڈاکٹرز اور ان کے عملے میں کورونا وائرس پھیلنے کے کیسز سامنے آ چکے ہیں۔ پچھلے ہفتے گلگت بلتستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے دوران انفیکٹ ہونے والے نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض کی موت نے میڈیکل کمیونٹی کی تشویش کو مزید بڑھا دیا۔
کراچی میں سول ہسپتال کی ایک سینئر ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے یہاں ابھی تک انتہائی نگہداشت وارڈ سمیت دیگر وارڈز میں ڈاکٹرز اور اسٹاف کے پاس کوئی حفاظتی لباس نہیں۔ انہوں نے کہا، "ہسپتال میں بعض لوگ کپڑے کے سستے ماسک پہنے پھر رہے ہیں، لیکن ان کے پاس نہ پلاسٹک کے دستانے ہیں، نہ آنکھوں اور چہرے کی حفاظت کا کوئی انتظام۔ ہمارا عملہ اس وقت سب سے زیادہ رسک پر ہے۔"
انہوں نے کہا کہ ان کے یہاں بھی کچھ ڈاکٹرز نے مل کر ایک مقامی فیکٹری کو ایک ہزار حفاظتی لباسوں کا آرڈر دیا ہے، جس کی مارکیٹ میں فی لباس قیمت بتیس سو روپے ہے لیکن فیکٹری نے انہیں ساڑھے سات سو روپے فی لباس کے رعایتی ریٹ پر یہ سامان مہیا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
پاکستان میں حکومت نے "کورونا سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے" کا نعرہ لگایا ہے۔ لیکن ملک میں طب کے شعبے سے وابستہ لوگوں کی نظر میں یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کمانڈر اپنے سپاہیوں کو خالی ہاتھ مسلح دشمن کے سامنے کھڑا کردے۔
اس حوالے سے گزشتہ دنوں بعض ٹی وی چینلز پر ڈاکٹروں اور نرسوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں "سلام" پیش کرنے کی مہم چلائی گئی۔
کراچی کے ایک سینئر ڈاکٹر نے اس پر یوں تبصرہ کیا: "ہمیں ان نمائشی اقدامات کی ضرورت نہیں۔ ضرورت ہے تو حفاظتی سامان کی، تاکہ ہم اپنے فرائض انجام دے سکیں۔ دنیا میں ہر شخص سماجی دوری کر سکتا ہے لیکن ڈاکٹر مریض سے فاصلہ نہیں رکھ سکتا۔ اسے مریض کی مدد کے لیے اسے چھونا ہی ہوتا ہے۔ ان خيالات میں اس مہلک انفیکشن سے ہمارا واحد دفاع یہ حفاظتی سامان ہے۔ کیونکہ اگر ڈاکٹر بھی بیمار پڑنا شروع ہوگئے، تو پھر مریضوں کو کون دیکھے گا؟
کورونا وائرس کے حوالے سے يوميہ بنيادوں پر منفی خبريں اور پيشرفت سامنے آ رہی ہيں تاہم دنيا بھر ميں معالج، محققين، سائنسدان، سياستدان، صحافی و ديگر شعبہ جات سے وابستہ افراد موجودہ بحران کو مات دينے کے ليے دن رات سرگرم ہيں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Ujetto
پاکستان ميں وائرس کی شدت ممکنہ طور پر کم
سائنسدان ڈاکٹر عطا الرحمن نے ايک مقامی صحافتی ادارے کو بتايا کہ پاکستان میں کورونا وائرس میں پائے جانے والے کروموزومز چین سے مختلف ہیں اور امکاناً ان کی شدت کم ہے۔ ان کے بقول يہ تحقیق کراچی کے جمیل الرحمان سینٹر فار جینومکس ریسرچ ميں کی گئی۔ اس کا عملی طور پر مطلب يہ نکل سکتا ہے کہ شايد بيماری کی شدت بھی کم ہو۔ مگر طبی ذرائع سے اس بارے ميں مزيد تحقيق و ضاحت درکار ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
مليريا کے خلاف کارآمد ادويات کی امريکی اتھارٹی سے منظوری
’امريکی فوڈ اينڈ ڈرگ ايڈمنسٹريشن‘ اتھارٹی (FDA) نے نئے کورونا وائرس کے چند مخصوص اور ہنگامی صورت حالوں ميں علاج کے ليے مليريا کے خلاف کارآمد دو مختلف ادويات کی منظوری دے دی ہے۔ انتيس مارچ کو سامنے آنے والی اس پيش رفت ميں ايف ڈے اے نے بتايا کہ کووڈ انيس کے علاج کے ليے chloroquine اور hydroxychloroquine پر تحقيق جاری ہے۔ امريکی صدر نے پچھلے ہفتے ان دو ادويات کو ’خدا کی طرف سے تحفہ‘ بھی قرار ديا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Julien
تحليق و تحقيق کا نتيجہ، سانس ميں مدد فراہم کرنے والا آلہ
فارمولا ون کی جرمن کار ساز کمپنی مرسڈيز نے ايک آلہ تيار کر ليا ہے، جو کووڈ انيس کے ان مريضوں کے ليے موزوں ثابت ہو گا جنہيں انتہائی نگہداشت درکار ہو۔ يہ يونيورسٹی کالج لندن کے اشتراک سے تيار کيا گيا۔ CPAP نامی يہ آلہ ناک اور منہ کے ذریعے آکسيجن پہنچاتا رہتا ہے اور مريض کے پھيپھڑوں ميں زيادہ آکسيجن جاتی ہے۔ توقع ہے کہ اس آلے ميں رد و بدل کے بعد وينٹيليٹرز کی شديد قلت کے مسئلے سے نمٹا جا سکے گا۔
تصویر: Universität Marburg/Martin Koch
کئی ملکوں ميں ويکسين کی آزمائش جاری
اگرچہ ماہرين بار بار دہرا رہے ہيں کہ وائرس کے انسداد کے ليے کسی ويکسين کی باقاعدہ منظوری و دستيابی ميں ايک سال سے زائد عرصہ لگ سکتا ہے، کئی ممالک ميں ويکسين کی آزمائش جاری ہے۔ ’جانسن اينڈ جانسن‘ کی جانب سے تيس مارچ کو بتايا گيا ہے کہ ويکسين کی انسانوں پر آزمائش ستمبر ميں شروع ہو گی اور کاميابی کی صورت ميں يہ آئندہ برس کے اوائل ميں دستياب ہو سکتی ہے۔ مارچ ميں کئی ممالک ميں ويکسين کی آزمائش جاری ہے۔
تصویر: Reuters/B. Guan
مالی نقصانات کے ازالے کے ليے امدادی پيکج
ہر ملک اپنے وسائل کے مطابق امدادی سرگرمياں جاری رکھے ہوئے ہے۔ امريکا ميں متاثرہ کاروباروں کے ليے 2.2 کھرب ڈالر کے امدادی پيکج کی منظوری دی جا چکی ہے۔ جرمنی نے بھی لاک ڈاؤن کے باعث مالياتی نقصانات کے ازالے کے ليے ساڑھے سات سو بلين ڈالر کے ريسکيو پيکج پر اتفاق کر ليا ہے۔ پاکستان نے يوميہ اجرت پر کام کرنے والوں کو چار ماہ تک تین ہزار روپے ماہانہ دینے کے ليے دو سو ارب روپے کا پیکج منظور کر ليا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
ماحول پر مثبت اثر
کورونا وائرس کے باعث عالمی سطح پر متعارف کردہ بندشوں کے نتيجے ميں کئی بڑے شہروں ميں فضائی آلودگی ميں واضح کمی ديکھی گئی ہے۔ روم، ميلان، نئی دہلی، بارسلونا، پيرس، لندن لگ بھگ تمام ہی بڑے شہروں کی ہوا ميں پچھلے دو ہفتوں کے دوران نائٹروجن ڈائی آکسائڈ (NO2) کی مقدار ميں چوبيس تا چھتيس فيصد کمی نوٹ کی گئی۔ يہ اعداد و شمار ’يورپی انوائرمنٹ ايجنسی‘ (EEA) نے جاری کيے۔
تصویر: Reuters/ESA
چين ميں وبا بظاہر کنٹرول ميں
کورونا وائرس کی نئی قسم کے اولين کيسز چينی صوبہ ہوبے کے شہر ووہان ميں سامنے آئے تھے۔ سخت اقدامات اور قرنطينہ کی پاليسی رنگ لائی اور دو ڈھائی ماہ کی دقت کے بعد اب ووہان ميں عائد پابندياں آہستہ آہستہ اٹھائی جا رہی ہيں۔ چين ميں پچھلے قريب ايک ہفتے کے دوران مقامی سطح پر نئے کيسز بھی شاذ و نادر ہی ديکھے گئے۔ يوں سخت قرنطينہ کی پاليسی بظاہر با اثر رہی۔
تصویر: Getty Images/K. Frayer
جنوبی کوريا کی کامياب حکمت عملی
چند ہفتوں قبل چين کے بعد کورونا وائرس کے سب سے زيادہ کيسز جنوبی کوريا ميں تھے۔ تاہم آج پوری دنيا سيول حکومت کی تعريف کے پل باندھ رہی ہے کہ کس طرح اس ملک نے وبا پر کنٹرول کيا۔ پير تيس مارچ کو جنوبی کوريا ميں کووڈ انيس کے اٹھہتر کيسز سامنے آئے۔ جنوبی کوريا نے وسيع پيمانے پر ٹيسٹ کرائے، حتی کہ گاڑی چلانے والے بھی رک کر ٹيسٹ کرا سکتے تھے۔ يوں مريضوں کی شناخت اور پھر علاج ممکن ہو سکا۔
تصویر: Imago Images/Xinhua/Wang Jingqiang
صحت ياب ہونے والوں کی تعداد حوصلہ بخش
تيس مارچ تک دنيا بھر ميں ايک لاکھ چھپن ہزار سے زائد افراد کورونا وائرس سے صحت ياب بھی ہو چکے ہيں۔ چين ميں صحت ياب ہونے والوں کی تعداد پچھتر ہزار سے زيادہ ہے۔ اسپين ميں لگ بھگ سترہ ہزار، ايران ميں چودہ ہزار، اٹلی ميں تيرہ ہزار سے زائد اور جرمنی ميں نو ہزار سے زائد افراد صحت ياب ہو چکے ہيں۔ جرمنی ميں شرح اموات اعشاريہ نصف سے بھی کم ہيں يعنی درست حکمت عملی با اثر ثابت ہو سکتی ہے۔