جدہ: قبرستان میں دھماکا، موقع پر کئی سفارتکار موجود تھے
11 نومبر 2020
سعودی ذرائع کے مطابق جدہ کے ایک قبرستان میں ہونے والے دھماکے میں دو افراد زخمی ہوئے ہیں۔ یہ دھماکا پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کی یاد میں منعقدہ ایک ایسی تقریب کے دوران ہوا، جس میں یورپی سفارت کار بھی شریک تھے۔
اشتہار
فرانسیسی حکام نے بتایا کہ بدھ کو پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کی یاد میں یہ تقریب سعودی شہر جدہ میں ہو رہی تھی جب یہ دیسی ساخت کا برودی مواد پھتا۔ اس بیان میں مزید بتایا گیا پھٹنے کا یہ واقعہ جدہ میں واقع غیر مسلموں کے قبرستان میں رونما ہوا۔ اس موقع پر منقدہ تقریب میں فرانس سمیت کئی دیگر ممالک کے سفارت کار اور قونصل خانے کے عملے کے ارکان موجود تھے۔
بلاجواز اور بزدلانہ فعل
اس موقع پر فرانسیسی کے علاوہ امریکی، برطانوی، اطالوی اور یونانی سفارت خانوں کے اہلکار موجود تھے۔ ان پانچوں ممالک کے مشرکہ بیان میں کہا گیا، ''بے گناہ اور معصوم افراد پر اس طرح کے حملوں کو کوئی جواز نہیں بنتا، یہ انتہائی شرمناک حرکت ہے۔‘‘
فرانسیسی بیان میں کہا گیا،''فرانس اس بزدلانہ اور بلاجواز حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔‘‘ سعودی ذرائع کے مطابق اس واقعے میں یونانی قونصل خانے کا ایک ملازم اور ایک سکیورٹی پر مامور ایک سعودی شہری معمولی سے زخمی ہوئے ہیں۔ ابھی تک کسی تنظیم کی جانب سے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔ اس دوران متحدہ عرب امارات میں فرانسیسی سفارت خانے نے اپنے شہریوں سے خاص طور پر تفریحی مقامات پر چوکنا اور محتاط رہنے کی ہدایات دی ہیں۔
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/Annika AF Klercker
8 تصاویر1 | 8
حالیہ حملے
جدہ میں اکتوبر کے آخر میں فرانسیسی قونصل خانے کے باہر خنجر سے کیے جانے والے ایک حملے میں ایک محافظ زخمی ہو گیا تھا۔ یہ حملہ اسی دن ہوا تھا، جس روز جنوبی فرانسیسی شہر نیس کے ایک چرچ میں چھرا گھوپنے کے ایک واقعے میں حملہ آور سمیت تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کو پیغمبر اسلام کے خاکوں کو دوبارہ سے شائع کرنے پر شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اکتوبر میں پیرس کے مضافات میں ایک 18 سالہ چیچن نژاد مہاجر نے ایک ایسے فرانسیسی ٹیچر کا سر قلم کر دیا تھا، جس نے اپنی کلاس میں طلبا کو آزادی اظہار رائے کے حق میں دلائل دیتے ہوئے پیغمبر اسلام کے خاکے دکھائے تھے۔
بدھ کے روز پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کو102 سال ہو گئے ہیں۔ یہ دن بہت سے ممالک میں منایا جاتا ہے۔
سعودی شہزادے کو خاشقجی کے قتل کی تحقیقات کا سامنا کرنا چاہیے