جدید تربیت یافتہ افغان کمانڈوز اب طالبان کا مقابلہ کریں گے
عابد حسین
5 ستمبر 2017
افغان حکومت نے عسکریت پسندوں کے خلاف انتہائی جدید تربیت یافتہ کمانڈوز جنگی میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ افغان صدر نے رواں برس کے اوائل میں کئی ہزار کمانڈوز کی تربیت کے احکامات جاری کیے تھے۔
اشتہار
سیاسی عدم استحکام سے دوچار ملک افغانستان کی حکومت نے طالبان جنگجوؤں اور دوسرے عسکریت پسندوں کی سرکوبی کے لیے جدید تربیت یافتہ خصوصی کمانڈوز کی تعداد کو دو گنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کمانڈوز کو اسپیشل آپریشنز کمانڈ (SOC) کا نام دیا گیا ہے۔ انہیں دارالحکومت کابل کے قریب واقع کیمپ مورہیڈ میں یہ تربیت دی جا رہی ہے۔
اس عمل میں امریکا سمیت کئی دوسرے مغربی ممالک کے فوجی بھی شامل ہیں۔
کئی مہینوں پر مشتمل یہ سخت تربیتی پروگرام افغانستان کے دو مختلف علاقوں میں قائم فوجی مراکز پر جاری ہیں۔
ان میں ایک کیمپ مورہیڈ ماضی میں سابقہ سوویت یونین کی فوج بھی استعمال کر چکی ہے۔
یہ کمانڈوز انتہائی جدید آر پی جی سیون راکٹ لانچرز سے لیس ہوں گے۔
افغان مبصرین کے مطابق ان کمانڈوز کو محاذ پر کھڑا کرنے کا فیصلہ امکاناً امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اُس اعلان کا تسلسل ہو سکتا ہے، جس میں انہوں نے جنگ جیتنے کے لیے مزید امریکی فوجیوں کی افغانستان میں تعیناتی کا کہا تھا۔
کیمپ مورہیڈ میں تربیت حاصل کرنے والے ایک افغان کمانڈو نے اپنی شناخت بتائے بغیر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اُن کی تربیت ایک شکاری کے طور پر کی گئی ہے اور اگلے محاذوں پر وہ یقینی طور پر دشمن کا شکار کریں گے۔ رواں برس کے دوران افغان صدر نے سترہ ہزار نئے کمانڈوز فوج میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
دوسری جانب زمینی صورت حال یہ ہے کہ طالبان جنگجو افغان فوج کو مختلف محاذوں پر تھکانے میں کامیاب رہے ہیں تو اس کے متوازی ابھرتے عسکری گروپ اسلامک اسٹیٹ کی چھاپ بھی افغانستان کے چند علاقوں میں واضح انداز میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ مختلف علاقوں میں جاری جنگی صورت حال نے افغان فوج کے جوش میں کمی پیدا کر رکھی ہے۔ فوج کی بے حالی کا اعتراف افغان وزارت دفاع کے ترجمان دولت وزیری بھی کر چکے ہیں۔
جرمن فوج، افغانستان سے واپسی کی تیاریاں
افغانستان میں جرمن فوجی مشن 2014ء کے آخر میں ختم ہو رہا ہے۔ اس دوران صرف فوجی اہلکار ہی نہیں بلکہ ہزاروں ٹن فوجی ساز و سامان کو بھی جرمنی واپس لانا ہے، جوآسان کام نہیں ہے
تصویر: cc-by-nd/Bundeswehr/Bienert
سامان کی ترسیل، ایک مسئلہ
جرمن فوج کے تقریباً ساڑھے چار ہزار اہلکار افغانستان میں تعینات ہیں اور سترہ سو گاڑیاں اور سامان سے بھرے ہوئے چھ ہزار کنٹینرز ان کے علاوہ ہیں۔ 2014ء کے اختتام تک تمام سامان حرب کو جرمنی واپس لانا ہے۔
تصویر: cc-by-nd/Bundeswehr/Bienert
ترابزون
افغانستان سے انخلاء کے دوران جرمن فوجی سامان کی منتقلی کے حوالے سے ترک شہر ترابزون ایک مرکز کی سی حیثیت ہے۔ عسکری ساز و سامان کی ترسیل کے لیے اس شہر کی بندرگاہ کو استعمال کیا جا رہا ہے
تصویر: cc-by-nd/Sebastian Wilke/Bundeswehr
مرحلہ وار
افغانستان میں جرمن فوج کی تعیناتی کو گیارہ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ جرمن دستوں کی ایک بڑی تعداد شمالی افغانستان میں ہے۔ بہت سے فوجی کیمپ ختم کیے جا چکے ہیں اور بغلان کی فوجی چھاؤنی بند کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
تصویر: cc-by-nd/Bundeswehr/Bienert
انخلاء کے بعد بھی تعیناتی
2014ء کے بعد بھی تقریباً 800 جرمن فوجی مقامی دستوں کو تربیت دینے کے لیے افغانستان میں موجود رہیں گے
تصویر: picture-alliance/dpa
سامان کی اندرون ملک منتقلی
جرمن فوج کے زیر استعمال رہنے والا کچھ سامان افغانستان میں ہی رہے گا۔ کچھ قابل استعمال اشیاء کو فروخت کیا جائے گا جبکہ کچھ ضائع بھی کر دیا جائے گا۔ اس دوران افغانستان کے اندر ساز و سامان کی منقلی شروع ہو گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مزار شریف
افغانستان کا چوتھا بڑا شہر مزار شریف سامان کی نقل و حمل کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ تقریباً تمام سامان اس شہر میں قائم فضائی اڈےکے ذریعے ہی آگے بھیجا جاتا ہے
تصویر: picture-alliance/dpa
دیکھ بھال
گاڑیوں کو واپس بھیجنے سے قبل انہیں جراثیم کش ادویات سے دھویا جاتا ہے۔ تاکہ خطرناک جراثیم دوسری جگہ منتقل نہ ہو سکیں۔
تصویر: Bundeswehr - PIZ SKB/Foto: Vanita Schanze
فضائی راستہ
جرمن فوج کے پاس بھاری فوجی سامان کو فضائی راستے منتقل کرنے کے لیے مناسب انتظام نہیں ہے۔ اس وجہ سے جرمن حکام نے یوکرائن اور روس کی ایک کمپنی سے انتونوو 124 سامان بردار جہاز کرائے پر لیے ہیں۔ اس جہاز کے ذریعے ایک وقت میں 150 ٹن تک سامان منتقل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: cc-by-nd/Bundeswehr/Weinrich
حفاظتی انتظامات
سلامتی کی وجوہات کی وجہ سے اسلحہ اور حساس نوعیت کے آلات مزار شریف سے براہ راست جرمنی بھیجے جاتے ہیں۔ جیسے کہ ہووٹزر 2000 ٹینک۔
تصویر: cc-by-nd/Bundeswehr/Schmidt.
ترکی کے راستے
اس کے علاوہ غیر فوجی سامان، جس میں گاڑیاں، ریڈیو، خیمے اور اسی طرح کی دیگر اشیاء شامل ہیں، ترکی کے بندرگاہی شہر ترابزون سے ہوتی ہوئی جرمنی پہنچتی ہیں۔
تصویر: cc-by/Sebastian Wilke/Bundeswehr
بحری جہازوں کا استعمال
ترک شہر ترابزوں سے سامان جہازوں پر لادا جاتا ہے۔ پھر یہ بحری جہاز بحیرہ روم اور بحراوقیانوس کے ساحلوں اور شمالی سمندر سے ہوتے ہوئے دو ہفتوں بعد شمالی جرمنی کی بندرگاہوں تک پہنچتے ہیں۔