سن 1923 میں ترکی کے جدید ریاست بننے کے بعد اس مسلم اکثریتی ملک میں پہلا چرچ تعمیر کیا جا رہا ہے۔ ترک صدر نے اس نئی مسیحی عبادت گاہ کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ ہفتے کے دن ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے استنبول کے نواح میں ایک نئے چرچ کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے۔ سن انیس سو تئیس میں ترکی کے جدید ریاست بننے کے بعد وہاں پہلی مرتبہ ایک نیا چرچ تعمیر کیا جا رہا ہے۔
استنبول کے نواح میں واقع یشئلکے میں تعمیر کیے جانے والے اس چرچ سے شامی مسیحی کمیونٹی کے سترہ ہزار افراد استفادہ کر سکیں گے۔ یہ کمیونٹی اس چرچ کی تعمیر کے لیے رقم بھی فراہم کر رہی ہے۔ شامی مسیحیوں کی بڑی تعداد مشرقی مسیحی روایات کی ماننے والی ہے اور وہ آرامی زبان میں عبادت کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یسوع مسیح نے اسی زبان میں عبادت کی تاکید کی تھی۔
اس چرچ کی سنگ بنیاد رکھنے کی خصوصی تقریب سے خطاب میں ترک صدر ایردوآن نے کہا کہ جمہوریہ ترکی کا فرض ہے کہ شامی کمیونٹی کی مذہبی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے انہیں ایک عبادت گاہ فراہم کی جائے۔ ایردوآن نے مزید کہا کہ یہ مسیحی لوگ اس علاقے کے قدیمی باسی ہیں۔
ترک صدر نے امید ظاہر کی ہے کہ شامی آرتھوڈکس سینٹ افرام چرچ نامی اس مسیحی عبادت گاہ کی تعمیر کا کام دو برسوں میں مکمل ہو جائے گا۔ سن دو ہزار نو میں جب ایردوآن وزیراعظم تھے، تو انہوں نے استنبول کی انتظامیہ سے کہا تھا کہ وہ اس چرچ کی تعمیر کے لیے جگہ کا انتظام کرے۔
حالیہ برسوں میں ترک حکومت نے کئی پرانے چرچوں کی تعمیر نو کی اور انہیں دوبارہ عوام کے لیے کھولا تاہم صدر ایردوآن کی حکومت پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ ایک سرکاری سیکولر ملک کو 'اسلامائز‘ کرنے کی کوشش میں ہیں۔
ترکی میں آباد آرمینائی مسیحی بھی الزام عائد کرتے ہیں کہ مسلم اکثریتی ملک ترکی میں انہیں دوسرے درجے کے شہری طور پر دیکھا جاتا ہے۔ مسیحی ترکی کی بیاسی ملین آبادی کا صرف اعشاریہ دو فیصد بنتے ہیں۔
ترک صدر ایردوآن کی کوشش ہے کہ ان کی حکومت ملک کی تمام اقلیتوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرے۔ ہفتے کے دن اپنے خطاب میں بھی انہوں نے کہا کہ 'یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ ریاست سبھی کی ہے‘۔ انہوں نے اصرار کیا کہ جو بھی ترکی کے ساتھ وفادار ہے وہ پہلے 'درجے کا شہری‘ ہے۔
ترکی کے ایک سرکاری سروے کے مطابق ملک کی اٹھانوے فیصد آبادی مسلم ہے لیکن گزشتہ برس کونڈا نامی گروپ کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے کے نتائج کے مطابق سن دو ہزار آٹھ تا دو ہزار اٹھارہ لادین ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سروے کے مطابق اس عرصے میں ترکی کی لادین آبادی ایک فیصد سے بڑھ کر تین فیصد تک پہنچ چکی تھی۔
ع ب / ع ت / خبر رساں ادارے
حاجیہ صوفیہ : میوزیم، مسجد یا پھر گرجا گھر
ترک شہر استنبول میں واقع حاجیہ صوفیہ پر شدید تنازعہ پایا جاتا ہے۔ یہ ایک عجائب گھر ہے، جسے ترک قوم پرست ایک مسجد کے طور پر جبکہ مسیحی ایک مرتبہ پھر کلیسا کے طور پر استعمال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Marius Becker
طرز تعمیر کا شاندار نمونہ
کونسٹانینوپل یا قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) میں رہنے والے رومی شہنشاہ جسٹینیان نے 532ء میں ایک شاندار کلیسا کی تعمیر کا حکم دیا۔ وہ ایک ایسا چرچ دیکھنا چاہتے ہیں، جیسا کہ ’حضرتِ آدم کے دور کے بعد سے نہ بنا ہو اور نہ ہی بعد میں تعمیر کیا جا سکے‘۔ اس حکم نامے کے 15 برس بعد ہی اس گرجا گھر کے بنیادی ڈھانچے کا افتتاح عمل میں آ گیا۔ تقریباً ایک ہزاریے تک یہ مسیحی دنیا کا سب سے بڑا کلیسا تھا۔
تصویر: imago/blickwinkel
بازنطینی سلطنت کی پہچان
شہنشاہ جسٹینیان نے قسطنطنیہ میں حاجیہ صوفیہ (ایا صوفیہ) کی تعمیر میں 150 ٹن سونے کی مالیت کے برابر پیسہ خرچ کیا گیا۔ قسطنطنیہ بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ آبنائے باسفورس پر واقع اس شہر کا موجودہ نام استنبول ہے۔ اسے ’چرچ آف وزڈم ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ساتویں صدی کے تقریباً تمام ہی شہنشاہوں کی تاجپوشی اسی کلیسا میں ہوئی تھی۔
تصویر: Getty Images
کلیسا سے مسجد میں تبدیلی
1453ء میں کونسٹانینوپول (قسطنطنیہ) پر بازنطینی حکمرانی ختم ہو گئی۔ عثمانی دور کا آغاز ہوا اور سلطان محمد دوئم نے شہر پر قبضہ کرنے کے بعد حاجیہ صوفیہ کو ایک مسجد میں تبدیل کر دیا۔ صلیب کی جگہ ہلال نے لے لی اور مینار بھی تعمیر کیے گئے۔
تصویر: public domain
مسجد سے میوزیم تک
جدید ترکی کے بانی مصطفٰی کمال اتا ترک نے 1934ء میں حاجیہ صوفیہ کو ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا۔ پھر اس کی تزئین و آرائش کا کام بھی کیا گیا اور بازنطینی دور کے وہ نقش و نگار بھی پھر سے بحال کر دیے گئے، جنہیں عثمانی دور میں چھُپا دیا گیا تھا۔ اس بات کا بھی خاص خیال رکھا گیا کہ عثمانی دور میں اس عمارت میں کیے گئے اضافے بھی برقرار رہیں۔
تصویر: AP
اسلام اور مسیحیت ساتھ ساتھ
حاجیہ صوفیہ میں جہاں ایک طرف جگہ جگہ پیغمبر اسلام کا نام ’محمد‘ اور ’اللہ‘ لکھا نظر آتا ہے، وہاں حضرت مریم کی وہ تصویر بھی موجود ہے، جس میں وہ حضرت عیسٰی کو گود میں لیے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے گنبد میں روشنی کے لیے تعمیر کی گئی وہ چالیس کھڑکیاں بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں، جن کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ گنبد میں دراڑیں پیدا نہ ہوں۔
تصویر: Bulent Kilic/AFP/Getty Images
بازنطینی دور کی نشانیاں
حاجیہ صوفیہ کی جنوبی دیوار پر چھوٹے چھوٹے پتھروں سے بنائی گئی یہ تصویر 14 ویں صدی عیسوی کی ہے، جسے تجدید اور مرمت کے ذریعے پھر سے بحال کیا گیا ہے۔ کافی زیادہ خراب ہونے کے باوجود اس تصویر میں مختلف چہرے صاف نظر آتے ہیں۔ اس تصویر کے وسط میں حضرت عیسٰی ہیں، اُن کے بائیں جانب حضرت مریم جبکہ دائیں جانب یوحنا ہیں۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عبادات پر پابندی
آج کل حاجیہ صوفیہ میں عبادت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ 2006ء میں اُس وقت کے پاپائے روم بینیڈکٹ شانز دہم نے بھی حاجیہ صوفیہ کے دورے کے دوران اس حکم کی پابندی کی تھی۔ اناطولیہ کے کٹر قوم پرست نوجوان اسے دوبارہ مسجد میں بدلنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے 15 ملین سے زائد دستخط بھی اکھٹے کر رکھے ہیں۔
تصویر: Mustafa Ozer/AFP/Getty Images
ایک اہم علامت
حاجیہ صوفیہ کے آس پاس مسلمانوں کی تاریخی عمارات کی کمی نہیں ہے۔ سامنے ہی سلطان احمد مسجد واقع ہے، جسے بلیو یا نیلی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ ترک قوم پرستوں کا موقف ہے کہ حاجیہ صوفیہ سلطان محمد کی جانب سے قسطنطنیہ فتح کرنے کی ایک اہم علامت ہے، اسی لیے اسے مسجد میں بدل دینا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/Arco
قدامت پسند مسیحی
قدامت پسند مسیحی بھی حاجیہ صوفیہ کی ملکیت کے حوالے سے دعوے کر رہے ہیں۔ ان کا ایک طویل عرصے سے مطالبہ ہے کہ حاجیہ صوفیہ کو مسیحی عبادات کے لیے دوبارہ سے کھولا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’حاجیہ صوفیہ کو مسیحی عقیدے کی گواہی کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا ‘۔
تصویر: picture-alliance/dpa
حاجیہ صوفیہ ’فیصلہ ابھی باقی ہے‘
حاجیہ صوفیہ کے بارے میں بالآخر کیا فیصلہ ہو گا، اس بارے میں کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ ترکی میں حزب اختلاف کی قوم پرست جماعت ’MHP‘ اسے مسجد میں تبدیل کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے اور پارلیمان میں اُس کی دو قراردادیں بھی مسترد ہو چکی ہیں۔ یونیسکو بھی اس حوالے سے فکر مند ہے کیونکہ 1985ء سے اس میوزیم کو عالمی ثقافتی ورثے کا درجہ دیا جا چکا ہے۔