جدید جوہری روسی ہتھیار، جنہیں ’دشمن تباہ نہیں کر سکتا‘
صائمہ حیدر
2 مارچ 2018
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے دعوی کیا ہے کہ روس نے ایسے جدید جوہری ہتھیار تیار کیے ہیں جنہیں کسی بھی دشمن ملک کی جانب سے راستے میں تباہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان ہتھیاروں میں نئے میزائل اور لیزر ہتھیار بھی شامل ہیں۔
اشتہار
روسی صدر نے یہ بات گزشتہ روز عوام سے ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں کہی تھی۔ ولادیمیر پوٹن کے مطابق جدید روسی ہتھیار عسکری ٹیکنالوجی کی ترقی میں بہت بڑا انقلاب ہے۔ انہوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ یہ نئے میزائل امریکی قیادت میں نیٹو کے دفاعی میزائل کے نظام کو بے کار کر دیں گے۔
روسی صدر نے جن نئے جدید ہتھیاروں کی بات کی، اُن پر ایک نظر ۔
سمارٹ بین البراعظمی بیلسٹک میزائل
روس کئی سالوں سے جدید بین البراعظمی میزائل یا ’آئی سی بی ایم‘ بنانے کے لیے کام کرتا رہا ہے۔
یہ نیا میزائل سابقہ سوویت دور کے مشہور زمانہ میزائل کی جگہ متعارف کرایا جا رہا ہے۔ سابقہ سوویت یونین کے دور میں جنگوں میں استعمال کیا جانے والا میزائل مغربی ممالک میں ’شیطان‘ کے نام سے مشہور تھا اور یہ دس جوہری ہتھیار ساتھ لے جا سکتا تھا۔
پوٹن کے مطابق ’سرمت‘ نامی یہ نیا میزائل 200 میٹرک ٹن وزن کا حامل ہے اور اس کی استعداد ’شیطان‘ سے کہیں زیادہ ہے۔ علاوہ ازیں یہ قطبِ شمالی اور جنوبی عبور کر سکتا ہے۔ پوٹن کا کہنا تھا کہ نیا میزائل اتنی سرعت سے اپنے نشانے کی جانب بڑھتا ہے کہ دشمن کے لیے اسے تباہ کرنا نا ممکن ہے۔ تقریر کے دوران ہی ’سرمت‘ کی تجرباتی لانچ کی ایک ویڈیو بھی دکھائی گئی۔
جوہری طاقت کا حامل گلوبل رینج کروز میزائل
روس کے نئے جدید جوہری ہتھیاروں میں ایٹمی قوت کا حامل گلوبل رینج کروز میزائل بھی شامل ہے۔ اس میزائل کی خاص بات اس کو چلانے والا جوہری انجن ہے جو اس ہتھیار کو عملی طور پر ’لا محدود‘ قوت فرہا کرتا ہے۔ نئے کروز میزائل کی خفیہ طور پر کارروائی کرنے کی اضافی صلاحیت کی وجہ سے دشمن اس کا آسانی سے پتہ نہیں لگا سکتا۔
بین البراعظمی زیر آب ڈرون
روسی ذرائع ابلاغ نے کئی برس پہلے زیر سمندر کام کرنے والے ایک جوہری ڈرون کی خبر دی تھی۔ اس ڈرون کو ’اسٹیٹس سِکس‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اب اس ڈرون کو سرکاری طور پر جدید ہتھیاروں کی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے۔ اس جوہری ڈرون کا ری ایکٹر دوسری جوہری آبدوزوں کے مقابلے میں ایک سو گنا کم ہے اور اسے انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ لانچ کیا جا سکتا ہے۔
کنزہل ہائپر سونک میزائل
امریکا اور روس دونوں ہی ایک عرصے سے ہائپر سونک میزائل تیار کرنے کے لیے کام کرتے رہے ہیں جو آواز کی رفتار سے پانچ گنا زیادہ تیز سفر کر سکے۔ کنزہل نامی نیا جدید روسی میزائل جہاز کے ذریعے ٹارگٹ کی طرف فائر کیا جا سکتا ہے اور یہ آواز کی رفتار سے دس گنا تیز سفر کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایون گارڈ ہائپر سونک وہیکل
روسی صدر پوٹن کی جانب سے جن نئے جوہری ہتھیاروں کے ناموں کا اعلان کیا گیا، اُن میں میزائل نظاموں سے بچنے کے لیے تیز حرکی صلاحیت رکھنے والا ہتھیار ’ایون گارڈ‘ بھی شامل ہے۔ ایون گارڈ کو ایسے مختلف نئے مرکبات سے ڈیزائن کیا گیا ہے جو 2000 ڈگری سینٹی گریڈ تک کے ٹمپریچر کو برداشت کر سکتے ہیں۔
لیزر ہتھیار
روس اور امریکا دونوں ہی ایک عرصے سے لیزر ہتھیار بنانے اور ان میں نت نئی جدت لانے میں مصروف ہیں۔ پوٹن کے بقول روس نے ایسے جدید لیزر ہتھیاروں کی تیاری میں اہم نتائج حاصل کیے ہیں۔
نیٹو اتحادی بمقابلہ روس: طاقت کا توازن کس کے حق میں؟
نیٹو اتحادیوں اور روس کے مابین طاقت کا توازن کیا ہے؟ اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے آئی آئی ایس ایس سمیت مختلف ذرائع سے اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ تفصیلات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: REUTERS
ایٹمی میزائل
روس کے پاس قریب اٹھارہ سو ایسے میزائل ہیں جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر ایسے 2330 میزائل ہیں جن میں سے دو ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Lo Scalzo
فوجیوں کی تعداد
نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر قریب پیتنس لاکھ فوجی ہیں جن میں سے ساڑھے سولہ لاکھ یورپی ممالک کی فوج میں، تین لاکھ بیاسی ہزار ترک اور قریب پونے چودہ لاکھ امریکی فوج کے اہلکار ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی فوج کی تعداد آٹھ لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PAP/T. Waszczuk
ٹینک
روسی ٹینکوں کی تعداد ساڑھے پندرہ ہزار ہے جب کہ نیٹو ممالک کے مجموعی ٹینکوں کی تعداد لگ بھگ بیس ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے ڈھائی ہزار ترک اور چھ ہزار امریکی فوج کے ٹینک بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/F. Kästle
ملٹی راکٹ لانچر
روس کے پاس بیک وقت کئی راکٹ فائر کرنے والے راکٹ لانچروں کی تعداد اڑتیس سو ہے جب کہ نیٹو کے پاس ایسے ہتھیاروں کی تعداد 3150 ہے ان میں سے 811 ترکی کی ملکیت ہیں۔
تصویر: Reuters/Alexei Chernyshev
جنگی ہیلی کاپٹر
روسی جنگی ہیلی کاپٹروں کی تعداد 480 ہے جب کہ نیٹو اتحادیوں کے پاس تیرہ سو سے زائد جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان میں سے قریب ایک ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: REUTERS
بمبار طیارے
نیٹو اتحادیوں کے بمبار طیاروں کی مجموعی تعداد چار ہزار سات سو کے قریب بنتی ہے۔ ان میں سے قریب اٹھائیس سو امریکا، سولہ سو نیٹو کے یورپی ارکان اور دو سو ترکی کے پاس ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی بمبار طیاروں کی تعداد چودہ سو ہے۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
لڑاکا طیارے
روس کے لڑاکا طیاروں کی تعداد ساڑھے سات سو ہے جب کہ نیٹو کے اتحادیوں کے لڑاکا طیاروں کی مجموعی تعداد قریب چار ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے تئیس سو امریکی اور ترکی کے دو سو لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
طیارہ بردار بحری بیڑے
روس کے پاس صرف ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے اس کے مقابلے میں نیٹو اتحادیوں کے پاس ایسے ستائیس بحری بیڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/MC3 K.D. Gahlau
جنگی بحری جہاز
نیٹو ارکان کے جنگی بحری جہازوں کی مجموعی تعداد 372 ہے جن میں سے پچیس ترک، 71 امریکی، چار کینیڈین جب کہ 164 نیٹو کے یورپی ارکان کی ملکیت ہیں۔ دوسری جانب روس کے عسکری بحری جہازوں کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔
نیٹو اتحادیوں کی ملکیت آبدوزوں کی مجموعی تعداد ایک سو ساٹھ بنتی ہے جب کہ روس کے پاس ساٹھ آبدوزیں ہیں۔ نیٹو ارکان کی ملکیت آبدوزوں میں امریکا کی 70 اور ترکی کی 12 آبدوزیں ہیں جب کہ نیٹو کے یورپی ارکان کے پاس مجموعی طور پر بہتر آبدوزیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Bager
دفاعی بجٹ
روس اور نیٹو کے دفاعی بجٹ کا موازنہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ روس کا دفاعی بجٹ محض 66 بلین ڈالر ہے جب کہ امریکی دفاعی بجٹ 588 بلین ڈالر ہے۔ نیٹو اتحاد کے مجموعی دفاعی بجٹ کی کل مالیت 876 بلین ڈالر بنتی ہے۔